
ہڈیوں کا درد،دیسی طب اور جدید میڈیکل سائنس کا تقابلی جائزہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف
ہڈیوں کا درد ایک عام طبی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ درد معمولی چوٹ سے لے کر سنگین بیماریوں تک مختلف وجوہات کا نتیجہ ہو سکتا ہے، اور خاص طور پر چالیس اور پچاس کی دہائی کے افراد میں اس کی شکایات زیادہ عام ہیں۔ ہڈیوں کا درد نہ صرف جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ فرد کی روزمرہ کی سرگرمیوں، کام کاج کی صلاحیت اور مجموعی طور پر معیارِ زندگی پر بھی نمایاں منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر، مختلف طبی نظاموں نے اس کی تشخیص اور علاج کے لیے اپنے اپنے نظریات اور طریقہ کار وضع کیے ہیں۔
یہ رپورٹ ہڈیوں کے درد کے حوالے سے دو بڑے طبی نظاموں – جدید ایلوپیتھک میڈیکل سائنس اور دیسی طب، بالخصوص یونانی طب – کے نقطہ نظر کا ایک جامع اور تقابلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس میں دونوں نظاموں کے تحت درد کی وجوہات، علامات، تشخیصی طریقوں، علاج کے اصولوں اور احتیاطی تدابیر پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔
ہڈیوں کا درد محض ایک جسمانی علامت نہیں بلکہ یہ فرد کی مجموعی صحت، سماجی سرگرمیوں اور نفسیاتی بہبود پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جدید طب ان پہلوؤں کو تسلیم کرتی ہے اور علاج کے دوران جسمانی بحالی کے ساتھ ساتھ معیارِ زندگی کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دیتی ہے، جیسا کہ فزیوتھراپی اور طرزِ زندگی میں تبدیلیوں کی تجاویز سے ظاہر ہوتا ہے۔
دوسری جانب، یونانی طب اپنے مزاج اور اخلاط کے نظریے کے تحت جسم و ذہن کے باہمی تعلق پر زیادہ زور دیتی ہے اور علاج کے اصولوں میں علاج بالغذا (غذائی پرہیز اور تجویز) اور علاج بالتدبیر (جسمانی طریقہ علاج اور طرزِ زندگی میں تبدیلیاں) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں نظام، اگرچہ اپنے اپنے تشریحی فریم ورک کے تحت، درد کو ایک کثیر الجہتی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا اثر پورے وجود پر پڑتا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد ان دونوں نظاموں کے نقطہ نظر کو واضح کرنا ہے تاکہ قارئین ہڈیوں کے درد کے مسئلے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور علاج کے انتخاب میں باخبر فیصلہ کر سکیں۔
باب 1: ہڈیوں کا درد – جدید میڈیکل سائنس کا نقطہ نظر
جدید میڈیکل سائنس ہڈیوں کے درد کو مختلف پیتھوفزیولوجیکل عوامل کے نتیجے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کی تشخیص و علاج کے لیے سائنسی شواہد پر مبنی طریقہ کار استعمال کرتی ہے۔
1.1 ہڈیوں کے درد کی عام وجوہات

جدید طب کے مطابق ہڈیوں میں درد کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
چوٹ (Trauma and Injuries): یہ ہڈیوں کے درد کی سب سے عام اور واضح وجہ ہے۔ کار حادثات، اونچائی سے گرنا، کھیلوں کے دوران لگنے والی چوٹیں، یا کسی بھی قسم کا براہ راست تصادم ہڈیوں میں فریکچر ( ٹوٹنا)، کریک (بال آنا) یا دیگر شدید نقصان کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں شدید درد ہوتا ہے۔ درد کی شدت اور مقام چوٹ کی نوعیت اور سنگینی پر منحصر ہوتا ہے ()۔
معدنیات کی کمی (Mineral Deficiency): ہڈیوں کی صحت اور مضبوطی کے لیے کیلشیم اور وٹامن ڈی جیسے معدنیات اور وٹامنز ناگزیر ہیں۔ ان کی کمی ہڈیوں کو کمزور اور بھربھرا بنا دیتی ہے، جس کے نتیجے میں آسٹیوپوروسس (Osteoporosis) اور آسٹیوملیشیا (Osteomalacia) جیسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ آسٹیوپوروسس میں ہڈیوں کی کثافت کم ہو جاتی ہے جس سے وہ آسانی سے ٹوٹ سکتی ہیں، جبکہ آسٹیوملیشیا میں ہڈیاں نرم پڑ جاتی ہیں۔ ان دونوں حالتوں میں ہڈیوں میں درد ایک عام علامت ہے، خاص طور پر بیماری کے آخری مراحل میں ()۔ یہ مسئلہ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

انفیکشن (Infection): آسٹیومائیلائٹس (Osteomyelitis) ہڈی کا ایک سنگین انفیکشن ہے جو بیکٹیریا یا فنگس کے ہڈیوں میں داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ انفیکشن خون کے ذریعے پھیل سکتا ہے یا کسی کھلے زخم یا سرجری کے بعد براہ راست ہڈی تک پہنچ سکتا ہے۔ آسٹیومائیلائٹس شدید درد، بخار، اور متاثرہ حصے میں سوجن کا باعث بن سکتا ہے اور اگر اس کا بروقت اور مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ ہڈی کو مستقل نقصان پہنچا سکتا ہے ()۔
کینسر (Cancer): ہڈیوں کا درد کینسر کی بھی ایک اہم علامت ہو سکتا ہے۔ یہ یا تو ہڈی کا اپنا بنیادی کینسر ہو سکتا ہے (مثلاً آسٹیوسارکوما (Osteosarcoma)، ایونگز سارکوما (Ewing’s sarcoma)) یا پھر جسم کے کسی دوسرے حصے (مثلاً چھاتی، پھیپھڑے، پروسٹیٹ) سے پھیل کر ہڈیوں تک پہنچنے والا کینسر (میٹاسٹیٹک کینسر Metastatic cancer)۔ لیوکیمیا (Leukemia)، جو خون کا کینسر ہے اور بون میرو (ہڈی کا گودا) میں شروع ہوتا ہے، بھی ہڈیوں میں شدید درد کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر ٹانگوں میں ()۔ کینسر کے باعث ہونے والا درد اکثر مسلسل، شدید اور رات کو بڑھنے والا ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ وزن میں کمی، تھکاوٹ اور بھوک نہ لگنے جیسی دیگر علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
خون کی فراہمی میں رکاوٹ (Disruption of Blood Supply): کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو ہڈیوں کو خون کی فراہمی میں خلل ڈالتی ہیں، جس کی وجہ سے ہڈی کے ٹشوز مردہ ہونے لگتے ہیں۔ اس حالت کو ایواسکولر نیکروسس (Avascular Necrosis) یا آسٹیونیکروسس (Osteonecrosis) کہا جاتا ہے۔ سِکل سیل انیمیا (Sickle Cell Anemia) جیسی بیماری میں بھی خون کی مخصوص خلیوں کی خرابی کے باعث ہڈیوں کو خون کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے۔ خون کی مسلسل فراہمی کے بغیر ہڈی کے ٹشو خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں شدید درد اور ہڈی کی کمزوری واقع ہوتی ہے ()۔
دیگر طبی حالتیں (Other Medical Conditions):
آسٹیوآرتھرائٹس (Osteoarthritis): یہ جوڑوں کی ایک عام بیماری ہے جس میں جوڑوں کے درمیان موجود کارٹلیج (نرم ہڈی) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ بنیادی طور پر جوڑوں کی بیماری ہے، لیکن اس سے ملحقہ ہڈیوں میں بھی درد محسوس ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب ہڈیاں آپس میں رگڑ کھاتی ہیں ()۔
پیجٹ کی بیماری (Paget’s Disease of Bone): یہ ایک دائمی بیماری ہے جس میں ہڈیوں کی تشکیل نو کا عمل غیر معمولی طور پر تیز اور بے ترتیب ہو جاتا ہے، جس سے ہڈیاں کمزور، موٹی اور بھدی ہو جاتی ہیں اور ان میں درد ہو سکتا ہے ()۔
حمل سے متعلق شرونیی درد (Pregnancy-related Pelvic Girdle Pain – PPGP): حمل کے دوران ہارمونل تبدیلیوں اور جسمانی دباؤ کی وجہ سے کئی خواتین کو شرونی (pelvis) کے جوڑوں اور ہڈیوں میں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ درد عام طور پر بچے کی پیدائش کے بعد ختم ہو جاتا ہے ()۔
پھٹی ہوئی ڈسک (Herniated Disc): ریڑھ کی ہڈی کی ڈسک کا اپنی جگہ سے سرک جانا یا پھٹ جانا بھی قریبی اعصاب پر دباؤ ڈال کر درد کا باعث بن سکتا ہے، جو بعض اوقات ہڈیوں تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے ()۔
ہڈیوں کے درد کی بہت سی وجوہات آپس میں مربوط ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، عمر بڑھنے کے ساتھ جسم میں قدرتی طور پر تبدیلیاں آتی ہیں؛ پٹھوں کا حجم اور ہڈیوں کی کثافت کم ہونے لگتی ہے، خاص طور پر اگر جسمانی سرگرمی بھی کم ہو جائے ()۔ یہ صورتحال آسٹیوپوروسس کے خطرے کو بڑھاتی ہے ()، جس کے نتیجے میں ہڈیاں اتنی نازک ہو جاتی ہیں کہ معمولی چوٹ یا گرنے سے بھی فریکچر ہو سکتا ہے ()۔ یہ ایک منفی چکر (vicious cycle) بناتا ہے جہاں درد اور فریکچر کا خوف فرد کو مزید غیر فعال بنا سکتا ہے، جو بالآخر ہڈیوں کی صحت کو مزید خراب کرتا ہے۔
جدید طب میں “ہڈیوں کا درد” ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے تحت مختلف بنیادی میکانزم کارفرما ہو سکتے ہیں۔ ان میں سوزش (inflammation)، ہڈی کی ساخت کو پہنچنے والا نقصان (structural damage)، اعصاب پر دباؤ (nerve compression)، یا ہڈی کو خون کی فراہمی میں کمی (ischemia) شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، آسٹیومائیلائٹس میں سوزش اور ٹشو کا براہ راست انفیکشن سے نقصان ہوتا ہے ()، جبکہ آسٹیوپوروسس میں ہڈی کی ساخت کمزور ہو جاتی ہے ()۔ اسی طرح، ریڑھ کی ہڈی کی ڈسک ہرنئیشن میں اعصاب پر دباؤ پڑتا ہے ()، اور ایواسکولر نیکروسس میں ہڈی کو خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے ()۔ ہر ایک بنیادی وجہ کی درست شناخت انتہائی اہم ہے کیونکہ علاج کا انحصار اسی پر ہوتا ہے، جو جدید طب کی تخصیص (specialization) اور بیماری کے مخصوص میکانزم کو سمجھنے کی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔
1.2 تشخیصی طریقے
ہڈیوں کے درد کی وجہ معلوم کرنے کے لیے جدید میڈیکل سائنس مختلف تشخیصی طریقے استعمال کرتی ہے:
طبی تاریخ اور جسمانی معائنہ (Medical History and Physical Examination): تشخیص کا عمل مریض کی تفصیلی طبی تاریخ جاننے سے شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مریض سے اس کی علامات، درد کی نوعیت (ہلکا، شدید، چبھنے والا، وغیرہ)، درد کا مقام، کب شروع ہوا، کتنی شدت کا ہے، کن چیزوں سے بڑھتا یا کم ہوتا ہے، اور دیگر متعلقہ بیماریوں یا ماضی میں لگنے والی چوٹوں کے بارے میں دریافت کرتا ہے ()۔ اس کے بعد جسمانی معائنہ کیا جاتا ہے جس میں متاثرہ حصے کو دیکھنا، چھو کر نرمی یا سوجن کا اندازہ لگانا، اور حرکت کی حد کو جانچنا شامل ہے۔ یہ ابتدائی مرحلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ مزید ٹیسٹوں کی ضرورت اور سمت کا تعین کرتا ہے۔
خون کے ٹیسٹ (Blood Tests): خون کے مختلف ٹیسٹ ہڈیوں کے درد کی وجہ جاننے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
وٹامن ڈی اور کیلشیم کی سطح جانچنا، جو آسٹیوپوروسس یا آسٹیوملیشیا کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
انفیکشن کے مارکرز جیسے سی-ری ایکٹیو پروٹین (CRP) اور ایریتھروسائٹ سیڈیمینٹیشن ریٹ (ESR) ، جو سوزش اور انفیکشن (مثلاً آسٹیومائیلائٹس) کی موجودگی ظاہر کرتے ہیں۔
کینسر کے مخصوص مارکرز (Tumor markers)۔
الکلائن فاسفیٹیز (Alkaline Phosphatase) کی سطح، جو ہڈیوں کی بعض بیماریوں (مثلاً پیجٹ کی بیماری، کچھ کینسر) میں بڑھ سکتی ہے۔
پیرا تھائرائڈ ہارمون اور دیگر ہارمونز کی سطح جو ہڈیوں کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ()۔
امیجنگ ٹیکنالوجیز (Imaging Technologies):
ایکسرے (X-ray): یہ سب سے پہلے اور عام طور پر استعمال ہونے والا امیجنگ ٹیسٹ ہے۔ ایکسرے سے ہڈیوں کے فریکچر، جوڑوں کی خرابی (مثلاً آرتھرائٹس)، ہڈیوں کی ساخت میں تبدیلی، اور بعض اوقات ٹیومر یا انفیکشن کا بھی پتہ چل سکتا ہے ()۔
سی ٹی اسکین (Computed Tomography – CT Scan): یہ ایکسرے کی ایک جدید شکل ہے جو ہڈیوں کی زیادہ تفصیلی اور سہ جہتی (3D) تصاویر فراہم کرتی ہے۔ یہ خاص طور پر پیچیدہ فریکچرز، ہڈیوں کے ٹیومر کی حد، یا ریڑھ کی ہڈی کے مسائل کی تشخیص میں مفید ہے ()۔
ایم آر آئی (Magnetic Resonance Imaging – MRI): ایم آر آئی مقناطیسی میدان اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتے ہوئے جسم کے اندرونی اعضاء اور بافتوں کی انتہائی واضح تصاویر بناتا ہے۔ یہ خاص طور پر نرم بافتوں (پٹھے، لیگامنٹس، ٹینڈنز)، بون میرو، اور ہڈیوں کے اندرونی مسائل جیسے انفیکشن (آسٹیومائیلائٹس)، ٹیومر، ایواسکولر نیکروسس، اور ریڑھ کی ہڈی کی ڈسک ہرنئیشن کی تشخیص کے لیے بہت مؤثر ہے ()۔
بون اسکین (Radionuclide Bone Scan): اس ٹیسٹ میں تابکار مادے کی تھوڑی سی مقدار خون میں داخل کی جاتی ہے، جو ہڈیوں کے ان حصوں میں جمع ہوتی ہے جہاں میٹابولک سرگرمی زیادہ ہوتی ہے (مثلاً سوزش، انفیکشن، فریکچر، یا ٹیومر کی جگہ)۔ اس کے بعد ایک خاص کیمرے سے ان جگہوں کی تصاویر لی جاتی ہیں۔ یہ ٹیسٹ ایسے چھوٹے فریکچرز، انفیکشنز، یا کینسر کے پھیلاؤ کا پتہ لگانے میں مددگار ہے جو ایکسرے پر نظر نہ آئیں ()۔
بون ڈینسٹی ٹیسٹ / ڈیکسا اسکین (Bone Density Test / DEXA Scan): یہ ٹیسٹ ہڈیوں کی کثافت (bone mineral density – BMD) کی پیمائش کرتا ہے۔ یہ آسٹیوپوروسس اور آسٹیوپینیا (ہڈیوں کی کثافت میں کمی) کی تشخیص اور مستقبل میں فریکچر کے خطرے کا اندازہ لگانے کے لیے سونے کا معیار سمجھا جاتا ہے ()۔
پیشاب کے ٹیسٹ (Urine Tests): پیشاب کے ٹیسٹ بعض اوقات بون میرو کی اسامانیتاوں، جیسے ملٹیپل مائیلوما (Multiple Myeloma)، یا جسم سے کیلشیم کے اخراج کی مقدار جانچنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں ()۔
بایوپسی (Biopsy): اگر کسی ٹیومر یا انفیکشن کا شبہ ہو تو، تشخیص کی تصدیق کے لیے ہڈی کے متاثرہ حصے سے ٹشو کا ایک چھوٹا سا نمونہ (بایوپسی) لیا جاتا ہے۔ اس نمونے کا مائیکروسکوپ کے نیچے معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ خلیات کی نوعیت (مثلاً کینسر کے خلیات یا انفیکشن پیدا کرنے والے جراثیم) کا تعین کیا جا سکے ()۔
جدید تشخیصی طریقے انتہائی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں اور بیماری کے ساختی (structural) اور بایو کیمیکل (biochemical) پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین ہڈیوں اور ملحقہ ٹشوز کی تفصیلی تصاویر فراہم کرتے ہیں ()، جبکہ خون کے ٹیسٹ مخصوص بائیو مارکرز جیسے وٹامن ڈی کی کمی یا سوزش کے عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں ()۔ یہ معلومات ایک مخصوص تشخیص تک پہنچنے میں مدد دیتی ہیں، جیسے آسٹیوپوروسس یا فریکچر، اور اس کی بنیاد پر ہدفی علاج (targeted therapy) ممکن ہوتا ہے۔ تاہم، یہ طریقے بعض اوقات مریض کے مجموعی تجربے، اس کے مزاج، وسیع تر غذائی عادات، یا ماحولیاتی عوامل کو اس گہرائی سے نہیں دیکھتے جس طرح یونانی طب میں ان پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ ایک ممکنہ خلا ہے جسے ایک مربوط طبی نقطہ نظر (integrative medical approach) کے ذریعے پُر کیا جا سکتا ہے، جہاں دونوں نظاموں کی طاقتوں کو استعمال کیا جائے۔
1.3 علاج کے جدید طریقے
جدید میڈیکل سائنس میں ہڈیوں کے درد کا علاج درد کی بنیادی وجہ، شدت اور مریض کی مجموعی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ علاج کے طریقوں میں ادویات، فزیوتھراپی، جراحی، اور طرزِ زندگی میں تبدیلیاں شامل ہیں۔
ادویاتی علاج (Pharmacological Treatment):
درد کش ادویات (Analgesics): ہلکے سے درمیانے درد کے لیے عام طور پر پیراسیٹامول (Paracetamol) تجویز کی جاتی ہے۔ شدید درد کی صورت میں، خاص طور پر چوٹ یا سرجری کے بعد، اوپیوائڈ (Opioid) ادویات جیسے کوڈین یا مورفین مختصر مدت کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں، لیکن ان کے نشے آور ہونے اور دیگر ضمنی اثرات کے باعث ان کا استعمال احتیاط سے کیا جاتا ہے ()۔
این ایس اے آئی ڈیز (NSAIDs – Non-Steroidal Anti-Inflammatory Drugs): یہ ادویات، مثلاً آئبوپروفین (Ibuprofen)، نیپروکسین (Naproxen)، اور ڈائیکلوفینک (Diclofenac)، درد اور سوزش دونوں کو کم کرنے میں مؤثر ہیں۔ یہ عام طور پر آرتھرائٹس، چوٹوں اور دیگر سوزشی حالتوں میں استعمال ہوتی ہیں ()۔ ان کا بنیادی میکانزم سائیکلوآکسیجنیز (COX) انزائمز (COX-1 اور COX-2) کو روکنا ہے، جس سے پروسٹاگلینڈنز (prostaglandins) نامی کیمیکلز کی پیداوار کم ہو جاتی ہے جو درد اور سوزش کا باعث بنتے ہیں ()۔ تاہم، NSAIDs کے طویل مدتی استعمال سے معدے کے مسائل (مثلاً السر، خون بہنا)، گردوں پر منفی اثرات، اور قلبی امراض کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ()۔
کورٹیکوسٹیرائڈز (Corticosteroids): یہ طاقتور اینٹی انفلیمیٹری ادویات ہیں، مثلاً پریڈنیسولون (Prednisolone)۔ یہ شدید سوزش کو تیزی سے کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور گولیوں کی شکل میں یا براہ راست متاثرہ جوڑ میں انجیکشن کے ذریعے دی جا سکتی ہیں۔ ان کا استعمال عام طور پر مختصر مدت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ طویل مدتی استعمال سے سنگین ضمنی اثرات ہو سکتے ہیں، بشمول ہڈیوں کا کمزور ہونا، وزن بڑھنا، اور انفیکشن کا خطرہ بڑھنا ()۔
بیماری میں ترمیم کرنے والی اینٹی رمیٹک ڈرگز (Disease-Modifying Anti-Rheumatic Drugs – DMARDs): یہ ادویات خاص طور پر سوزشی آرتھرائٹس جیسے ریمیٹائڈ آرتھرائٹس (Rheumatoid Arthritis) کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ میتھوٹریکسیٹ (Methotrexate) اور سلفاسالازین (Sulfasalazine) عام مثالیں ہیں۔ یہ مدافعتی نظام کے ان کیمیکلز کے اثرات کو روک کر کام کرتی ہیں جو جوڑوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اس طرح بیماری کی پیشرفت کو سست کرتی ہیں اور جوڑوں کو مزید نقصان سے بچاتی ہیں ()۔
بائیولوجک علاج (Biologic Treatments): یہ DMARDs کی ایک جدید قسم ہے جو مدافعتی نظام کے مخصوص حصوں کو نشانہ بناتی ہے۔ ایڈیلیمیب (Adalimumab) اور ایٹانرسیپٹ (Etanercept) جیسی ادویات ان مریضوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں جن پر روایتی DMARDs مؤثر نہیں ہوتیں۔ یہ خون میں موجود مخصوص کیمیکلز کو مدافعتی نظام کو جوڑوں پر حملہ کرنے سے روکتی ہیں ()۔
اینٹی بائیوٹکس/اینٹی فنگل (Antibiotics/Antifungals): اگر ہڈیوں کا درد کسی بیکٹیریل یا فنگل انفیکشن (مثلاً آسٹیومائیلائٹس) کی وجہ سے ہو، تو اس انفیکشن کو ختم کرنے کے لیے مناسب اینٹی بائیوٹک یا اینٹی فنگل ادویات طویل مدت تک دی جاتی ہیں ()۔
آسٹیوپوروسس کی ادویات (Osteoporosis Medications): آسٹیوپوروسس کے علاج اور فریکچر سے بچاؤ کے لیے بفسفونیٹس (Bisphosphonates) جیسی ادویات استعمال ہوتی ہیں جو ہڈیوں کے ٹوٹنے کے عمل کو سست کرتی ہیں۔ کیلشیم اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس بھی عام طور پر تجویز کیے جاتے ہیں ()۔
فزیوتھراپی اور ورزش (Physiotherapy and Exercise): فزیوتھراپی ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کے علاج اور بحالی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں مختلف ورزشیں، کھنچاؤ (stretching)، اور تکنیکیں شامل ہیں جن کا مقصد پٹھوں کو مضبوط کرنا، جوڑوں کی لچک اور حرکت کی حد کو بہتر بنانا، اور درد کو کم کرنا ہے۔ کم اثر والی ورزشیں جیسے پیدل چلنا، تیراکی، اور سائیکلنگ اکثر تجویز کی جاتی ہیں ()۔
جراحی کے آپشنز (Surgical Options): بعض صورتوں میں، جب دیگر علاج مؤثر نہ ہوں یا شدید نقصان ہو چکا ہو، تو سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس میں شامل ہیں:
شدید فریکچر کی صورت میں ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے پلیٹس، راڈز یا اسکرو کا استعمال۔
جوڑوں کی تبدیلی (Joint replacement surgery)، مثلاً گھٹنے یا کولہے کے جوڑ کی تبدیلی، خاص طور پر شدید آرتھرائٹس میں۔
ریڑھ کی ہڈی کی ڈسک ہرنئیشن کے لیے مائیکرو ڈسکیکٹومی (Microdiscectomy) جیسی کم سے کم انویسیو سرجری۔
ہڈیوں کے ٹیومر کو نکالنا۔
آسٹیومائیلائٹس کی شدید صورت میں متاثرہ یا مردہ ہڈی کے حصے کو ہٹانا (Debridement)۔ ()۔ سرجری عام طور پر آخری آپشن ہوتا ہے۔
طرزِ زندگی میں تبدیلیاں اور غذائی سفارشات (Lifestyle Modifications and Dietary Recommendations):
صحت مند وزن برقرار رکھنا: زیادہ وزن جوڑوں اور ہڈیوں پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے، لہٰذا صحت مند باڈی ماس انڈیکس (BMI) کو برقرار رکھنا ضروری ہے ()۔
متوازن غذا: کیلشیم اور وٹامن ڈی سے بھرپور غذا (مثلاً دودھ، دہی، پنیر، پتوں والی سبزیاں، تیل والی مچھلی) ہڈیوں کی صحت کے لیے اہم ہے ()۔ فریکچر کی بحالی کے لیے پروٹین سے بھرپور غذائیں (گوشت، مچھلی، انڈے، دالیں) بھی ضروری ہیں ()۔
تمباکو نوشی اور الکحل سے پرہیز: تمباکو نوشی ہڈیوں کی کثافت کو کم کرتی ہے اور فریکچر کے ٹھیک ہونے کے عمل کو سست کرتی ہے۔ الکحل کا زیادہ استعمال بھی ہڈیوں کی صحت کے لیے مضر ہے اور گرنے کا خطرہ بڑھاتا ہے ()۔
کیفین اور نمک کا محدود استعمال: خاص طور پر فریکچر کی صورت میں، زیادہ کیفین اور نمک کا استعمال کیلشیم کے اخراج کو بڑھا سکتا ہے اور ہڈیوں کے ٹھیک ہونے کے عمل کو سست کر سکتا ہے ()۔
دیگر طریقے:
آرام (Rest): خاص طور پر چوٹ لگنے کے بعد متاثرہ حصے کو آرام دینا ضروری ہے۔
برف اور گرمی کا استعمال (Ice and Heat Application): چوٹ لگنے کے فوراً بعد برف لگانے سے سوزش اور درد کم ہوتا ہے۔ دائمی درد میں گرمی کا استعمال پٹھوں کو سکون پہنچا سکتا ہے۔ ()۔
متاثرہ حصے کو اونچا رکھنا (Elevation): سوجن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسپلنٹ یا کاسٹ کا استعمال (Splints or Casts): ٹوٹی ہوئی ہڈی کو اپنی جگہ پر رکھنے اور اسے حرکت سے بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں تاکہ وہ صحیح طریقے سے جڑ سکے۔ ()۔
جدید طب میں علاج کا رجحان تیزی سے “پرسنلائزڈ میڈیسن” (شخصی علاج) کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں علاج کو فرد کی مخصوص جینیاتی ساخت اور بیماری کی نوعیت کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ تاہم، ہڈیوں کے درد کے بہت سے عام علاج، جیسے NSAIDs، اب بھی زیادہ تر علامتی ریلیف (symptomatic relief) پر توجہ دیتے ہیں، خاص طور پر دائمی حالتوں میں، بجائے اس کے کہ وہ بیماری کی بنیادی وجہ کو مکمل طور پر ختم کریں۔ اس کے برعکس، DMARDs اور بائیولوجکس جیسی ادویات بیماری کے بنیادی عمل میں مداخلت کرتی ہیں اور اس کی پیشرفت کو سست کرنے کی کوشش کرتی ہیں ()۔ یہ فرق علاج کے فلسفے میں ایک اہم نکتے کی نشاندہی کرتا ہے: علامات کا علاج بمقابلہ بیماری میں ترمیم کرنے والا علاج۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جدید علاج اکثر کثیر الجہتی (multimodal) ہوتے ہیں، جس میں ادویات، فزیوتھراپی، اور طرزِ زندگی میں تبدیلیاں بیک وقت شامل ہوتی ہیں ()۔ یہ نقطہ نظر یونانی طب کے “علاج بالدواء (ادویات سے علاج)، علاج بالتدبیر (جسمانی طریقہ علاج)، اور علاج بالغذا (غذا سے علاج)” کے اصولوں سے کسی حد تک مطابقت رکھتا ہے ()، اگرچہ دونوں نظاموں کی نظریاتی بنیادیں اور طریقہ کار مختلف ہیں۔ یہ مماثلت ظاہر کرتی ہے کہ دونوں نظام مختلف راستوں سے ایک ہی بنیادی مقصد (درد میں کمی، افعال کی بحالی، اور معیارِ زندگی میں بہتری) کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔
1.4 احتیاطی تدابیر
جدید میڈیکل سائنس ہڈیوں کے درد اور متعلقہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر پر زور دیتی ہے:
متوازن غذا: ایسی غذا کا استعمال جس میں کیلشیم اور وٹامن ڈی مناسب مقدار میں موجود ہوں، ہڈیوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دودھ اور اس سے بنی مصنوعات، سبز پتوں والی سبزیاں، بادام، اور تیل والی مچھلی (جیسے سالمن اور سارڈین) اچھے ذرائع ہیں۔ ضرورت پڑنے پر سپلیمنٹس بھی لیے جا سکتے ہیں ()۔
باقاعدہ ورزش: باقاعدگی سے ورزش کرنا، خاص طور پر وزن اٹھانے والی سرگرمیاں (Weight-bearing exercises) جیسے تیز چلنا، جاگنگ، سیڑھیاں چڑھنا، اور وزن کی تربیت، ہڈیوں کو مضبوط بنانے اور ان کی کثافت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں ()۔
صحت مند باڈی ماس انڈیکس (BMI) کو برقرار رکھنا: زیادہ وزن جوڑوں اور ہڈیوں پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے، جبکہ بہت کم وزن بھی آسٹیوپوروسس کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ لہٰذا، ایک صحت مند BMI کو برقرار رکھنا ضروری ہے ()۔
تمباکو نوشی سے پرہیز: تمباکو نوشی ہڈیوں کی کثافت کو کم کرتی ہے، فریکچر کے خطرے کو بڑھاتی ہے، اور ہڈیوں کے ٹھیک ہونے کے عمل کو سست کرتی ہے ()۔
الکحل کا معتدل استعمال یا پرہیز: الکحل کا زیادہ استعمال ہڈیوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، کیلشیم کے جذب کو متاثر کرتا ہے، اور گرنے کا خطرہ بڑھاتا ہے جس سے فریکچر ہو سکتا ہے ()۔
گرنے سے بچاؤ کے اقدامات: خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے لیے، گھر میں پھسلن والی جگہوں کو محفوظ بنانا، مناسب روشنی کا انتظام کرنا، اور ضرورت پڑنے پر چلنے میں مددگار آلات (walking aids) کا استعمال کرنا گرنے اور فریکچر سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ()۔
صحیح کرنسی (Posture) کا خیال رکھنا: بیٹھنے، کھڑے ہونے اور کام کرنے کے دوران صحیح کرنسی اختیار کرنا ریڑھ کی ہڈی اور دیگر جوڑوں پر غیر ضروری دباؤ کو کم کرتا ہے ()۔
جدید طب میں ہڈیوں کے درد سے بچاؤ کی حکمت عملی بڑی حد تک طرزِ زندگی کے صحت مند عوامل کو اپنانے اور آسٹیوپوروسس جیسی عام بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ ایک فعال (proactive) نقطہ نظر ہے جو بیماری کی نشوونما سے پہلے ہی مداخلت پر زور دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مناسب مقدار () اور وزن اٹھانے والی ورزشیں () ہڈیوں کی کثافت کو برقرار رکھنے اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح، تمباکو نوشی اور الکحل کے زیادہ استعمال سے گریز () بھی ہڈیوں کی صحت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تمام سفارشات بنیادی طور پر آسٹیوپوروسس اور اس سے منسلک فریکچرز کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ہیں، جو کہ ہڈیوں کے درد کی ایک بڑی اور قابلِ روک تھام وجہ ہے۔
1.5 درد کے انتظام میں حالیہ پیشرفت
درد، خاص طور پر دائمی درد، کے انتظام میں جدید میڈیکل سائنس مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ ہڈیوں کے درد سمیت مختلف قسم کے دردوں کے لیے نئی اور بہتر حکمت عملیاں وضع کی جا رہی ہیں:
اوپیوائڈ کے متبادل (Opioid Alternatives): اوپیوائڈز کے نشے آور ہونے اور دیگر سنگین ضمنی اثرات کے پیشِ نظر، ایسے متبادل درد کش ادویات پر تحقیق اور توجہ بڑھی ہے جو مؤثر بھی ہوں اور محفوظ بھی۔ ٹراماڈول (Tramadol)، ٹیپنٹاڈول (Tapentadol)، اور بوپرینورفین (Buprenorphine) جیسی ادویات کم ضمنی اثرات کے ساتھ درد میں آرام پہنچا سکتی ہیں ()۔
جدید ڈرگ ڈیلیوری سسٹم (Novel Drug Delivery Systems): ادویات کو جسم میں پہنچانے کے نئے طریقے تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ دوا براہ راست متاثرہ جگہ پر زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچ سکے اور اس کے ضمنی اثرات کم ہوں۔ ان میں ٹرانسڈرمل پیچز (Transdermal patches) جو جلد کے ذریعے دوا جذب کراتے ہیں، انٹرا تھیکل ڈرگ ڈیلیوری (Intrathecal drug delivery) جو دوا کو براہ راست ریڑھ کی ہڈی کے سیال میں پہنچاتی ہے، اور لیپوسومل فارمولیشنز (Liposomal formulations) شامل ہیں جو دوا کو خاص خلیات تک پہنچانے میں مدد دیتی ہیں ()۔
ایڈجونٹ ادویات (Adjuvant Medications): یہ وہ ادویات ہیں جو بنیادی طور پر درد کے لیے نہیں بنائی گئیں لیکن درد، خاص طور پر نیوروپیتھک درد (اعصابی درد) میں، مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ اینٹی ڈپریسنٹس (Antidepressants) اور اینٹی کنولسنٹس (Anticonvulsants) (مرگی کے دوروں کی ادویات) شامل ہیں۔ NMDA ریسیپٹر مخالف (NMDA receptor antagonists) جیسے کیٹامین (Ketamine) بھی شدید اور پیچیدہ درد کی کچھ اقسام میں استعمال ہو رہے ہیں ()۔
کم سے کم انویسیو اسپائن سرجری (Minimally Invasive Spine Surgery – MISS): ریڑھ کی ہڈی کے مسائل، جیسے ہرنیٹڈ ڈسک، کے لیے اب کم سے کم چیر پھاڑ والی سرجری کی تکنیکیں دستیاب ہیں۔ ان میں چھوٹے چیरे لگائے جاتے ہیں، جس سے پٹھوں کو کم نقصان پہنچتا ہے، خون کم ضائع ہوتا ہے، اور مریض جلد صحت یاب ہوتا ہے ()۔
ریجنریٹو میڈیسن (Regenerative Medicine): یہ ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے جس میں جسم کے اپنے ہی خلیات یا دیگر حیاتیاتی مواد کو استعمال کرکے خراب ٹشوز کی مرمت اور تخلیق نو کی کوشش کی جاتی ہے۔ پلیٹلیٹ رچ پلازما (Platelet-Rich Plasma – PRP) تھراپی اور اسٹیم سیل (Stem cell) تھراپی جوڑوں اور ہڈیوں کے بعض مسائل میں امید افزا نتائج دکھا رہی ہیں، اگرچہ ان پر مزید تحقیق جاری ہے ()۔
روبوٹک اسسٹڈ سرجری (Robotic-Assisted Surgery): روبوٹک نظاموں کا استعمال سرجری میں زیادہ درستگی (precision) اور بہتر نتائج کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پیچیدہ آپریشنز میں ()۔
مصنوعی ڈسک کی تبدیلی (Artificial Disc Replacement): ریڑھ کی ہڈی کی خراب ڈسک کو تبدیل کرنے کے لیے مصنوعی ڈسک کا استعمال، جو روایتی فیوژن سرجری کے برعکس حرکت کو زیادہ بہتر طور پر محفوظ رکھتی ہے ()۔
اسپائنل کورڈ اسٹیمولیشن (Spinal Cord Stimulation – SCS): یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی کے قریب ایک چھوٹا سا آلہ نصب کیا جاتا ہے جو ہلکے برقی سگنل پیدا کرکے درد کے احساس کو دماغ تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ یہ خاص طور پر دائمی نیوروپیتھک درد میں مفید ہے ()۔
ورچوئل رئیلٹی (Virtual Reality – VR) برائے درد سے نجات: ورچوئل رئیلٹی کا استعمال مریضوں کی توجہ درد سے ہٹانے اور انہیں پرسکون ماحول فراہم کرکے درد کے احساس کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ یہ ایک غیر دواسازی طریقہ ہے جس کے ضمنی اثرات کم ہیں ()۔
ذہنی جسمانی مداخلتیں (Mind-body interventions): مائنڈفلنیس بیسڈ اسٹریس ریڈکشن (Mindfulness-Based Stress Reduction – MBSR)، کوگنیٹیو بیہیورل تھراپی (Cognitive-Behavioral Therapy – CBT)، یوگا، اور مراقبہ جیسی تکنیکیں دائمی درد کے انتظام اور اس سے وابستہ نفسیاتی مسائل (جیسے بے چینی اور ڈپریشن) کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ()۔
غذائی مداخلتیں (Nutritional interventions): بعض غذائی اجزاء اور سپلیمنٹس (مثلاً اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات والی غذائیں، اومیگا-3 فیٹی ایسڈز) سوزش کو کم کرکے درد میں آرام پہنچا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق جاری ہے ()۔
درد کے انتظام میں یہ جدید پیشرفت ٹیکنالوجی کے استعمال اور درد کے حیاتیاتی و نفسیاتی میکانزم کی گہری تفہیم پر مبنی ہے۔ اس میں نہ صرف نئی دوائیں اور جدید جراحی کی تکنیکیں شامل ہیں، بلکہ غیر دواسازی کے طریقے جیسے ورچوئل رئیلٹی اور مائنڈ-باڈی تھراپیز بھی شامل ہیں، جو درد کے جسمانی اور نفسیاتی دونوں پہلوؤں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ایک زیادہ جامع، مربوط اور فرد کے لیے مخصوص (personalized) علاج کی طرف ایک اہم قدم ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ درد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی حل کی ضرورت ہے۔
باب 2: ہڈیوں کا درد – دیسی طب (یونانی طب) کا نقطہ نظر
دیسی طب، بالخصوص یونانی طب، کا نظام صحت و مرض کے بارے میں ایک منفرد فلسفہ رکھتا ہے جو ہزاروں سال پر محیط تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔ ہڈیوں کے درد، جسے یونانی طب میں عموماً “وجع المفاصل” کے تحت زیرِ بحث لایا جاتا ہے، اس کے اسباب، تشخیص اور علاج کے اصول جدید طب سے کافی مختلف ہیں۔
2.1 یونانی طب میں ہڈیوں کے درد کا تصور (خاص طور پر وجع المفاصل)
یونانی طب میں “وجع المفاصل” ایک وسیع اصطلاح ہے جو صرف ایک بیماری نہیں بلکہ جوڑوں اور ہڈیوں سے متعلق مختلف تکلیف دہ حالتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں سوزشی (inflammatory)، غیر سوزشی (non-inflammatory)، اور دیگر عضلاتی و استخوانی (musculoskeletal) تکالیف شامل ہو سکتی ہیں ()۔ اسے عام طور پر جوڑوں میں درد، سوزش اور سختی (stiffness) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یونانی اطباء کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ جسم میں غیر طبعی یا فاسد رطوبات، خاص طور پر “رطوبتِ غریبہ” (foreign humor/abnormal fluid)، کا جوڑوں میں جمع ہو جانا ہے ()۔
مشہور یونانی اطباء جیسے جالینوس، ابنِ سینا (بوعلی سینا)، زکریا رازی، اسماعیل جرجانی، اور اکبر ارزانی نے اپنی تصانیف میں وجع المفاصل کی ماہیت، اسباب اور علاج پر تفصیلی بحث کی ہے ()۔ ان کے مطابق، وجع المفاصل کی مختلف اقسام ہو سکتی ہیں، جن کی درجہ بندی درج ذیل بنیادوں پر کی جاتی ہے:
شدت کے لحاظ سے: حاد (Acute) یعنی شدید اور اچانک ہونے والا درد، اور مزمن (Chronic) یعنی پرانا اور طویل عرصے تک رہنے والا درد ()۔
سوزش کی موجودگی کے لحاظ سے: حار (Hot) یعنی گرم، جس میں سوزش اور حرارت پائی جائے، اور بارد (Cold) یعنی سرد، جس میں سوزش اور حرارت نمایاں نہ ہو ()۔
سبب (Etiology) کے لحاظ سے: وجع المفاصل سادہ (بغیر کسی واضح مادی سبب کے)، وجع المفاصل مادی (کسی فاسد مادے کی وجہ سے)، وجع المفاصل ریحی (ریاح یا گیسوں کی وجہ سے)، اور وجع المفاصل عفونی (انفیکشن کی وجہ سے) ()۔
ملوث خلط (Involved Humor) کے لحاظ سے: یہ سب سے اہم درجہ بندی ہے:
وجع المفاصل دموی (Sanguineous): خون (دم) کی زیادتی یا خرابی سے۔
وجع المفاصل صفراوی (Bilious): صفرا (زرد پت) کی زیادتی یا خرابی سے۔
وجع المفاصل بلغمی (Phlegmatic): بلغم کی زیادتی یا خرابی سے۔
وجع المفاصل سوداوی (Melancholic): سودا (سیاہ پت) کی زیادتی یا خرابی سے۔
وجع المفاصل مرکب (Compound): جب ایک سے زیادہ اخلاط ملوث ہوں۔ ()۔
متاثرہ جوڑ کے لحاظ سے: مثلاً عرق النساء (Sciatica)، نقرس (Gout)، وجع الزہر (کمر کا درد)، وجع الورک (کولہے کا درد)، وغیرہ ()۔
یونانی طب میں “وجع المفاصل” کی یہ درجہ بندی جدید طب کی مخصوص بیماریوں (مثلاً ریمیٹائڈ آرتھرائٹس، آسٹیوآرتھرائٹس) کی درجہ بندی سے مختلف ہے۔ یہ ایک علامتی تشخیص (symptomatic diagnosis) سے زیادہ ایک سنڈرومک اپروچ (syndromic approach) کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مختلف بنیادی اسباب اور اخلاطی عدم توازن ایک ہی طرح کی علامات (جوڑوں کا درد) پیدا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وجع المفاصل کی مختلف اقسام جیسے بلغمی، صفراوی، دموی، اور سوداوی () اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ایک ہی بنیادی علامت (جوڑوں کا درد) مختلف اخلاطی پس منظر کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اس کا علاج بھی اسی خلطی عدم توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے ()۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یونانی طب میں تشخیص اور علاج فرد کے مجموعی مزاج اور اخلاطی کیفیت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ صرف بیماری کے نام پر۔
2.2 اسبابِ مرض: اخلاطی نظریہ اور دیگر عوامل
یونانی طب کے مطابق، انسانی جسم چار بنیادی اخلاط (Humors) – دم (خون)، بلغم (Phlegm)، صفرا (Yellow bile)، اور سودا (Black bile) – اور ان کے متوازن امتزاج سے بننے والے مزاج (Temperament) پر قائم ہے۔ صحت کی حالت میں یہ اخلاط متوازن رہتے ہیں، لیکن جب ان میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے یا کوئی خلط فاسد (morbid) ہو جاتا ہے، تو مختلف امراض جنم لیتے ہیں، بشمول وجع المفاصل۔
بنیادی اسباب (اسبابِ فاعلہ – Primary Causes):
سوءِ مزاج (Derangement of Temperament): یہ مزاج کا بگاڑ ہے جو یا تو سادہ (sada) ہو سکتا ہے، جس میں صرف اعضاء کے افعال میں تبدیلی آتی ہے بغیر کسی مادی خلط کے ملوث ہوئے، یا مادی (maddi) ہو سکتا ہے، جس میں کوئی خلط ملوث ہو کر اعضاء میں ساختی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ سوءِ مزاج مفرد (کسی ایک خلط کی وجہ سے) یا مرکب (کئی اخلاط کی وجہ سے) ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ حار ملتہب (گرم اور سوزش پیدا کرنے والا)، بارد منجمد (سرد اور ٹھوس کرنے والا)، یا یابس منقبض (خشک اور سکڑنے والا) ہو سکتا ہے۔ درد کی بنیادی وجوہات میں اکثر سوءِ مزاج مستحکم (مسلسل غیر مستحکم مزاج) یا سوءِ مزاج بارد (سرد مزاج کا بگاڑ) شامل ہوتے ہیں ()۔
فاسد مادہ (Morbid Substance): یہ مختلف غیر طبعی یا بگڑے ہوئے اخلاط اور دیگر مادے ہو سکتے ہیں جو جوڑوں میں جمع ہو کر درد اور سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
دم (خون): دم کی زیادتی یا اس کا بگڑ جانا (مثلاً دمِ بلغمی، دمِ صفراوی، دمِ سوداوی) وجع المفاصل دموی کا سبب بنتا ہے، جس میں جوڑوں میں سوجن، سرخی اور جلن ہوتی ہے ()۔
بلغم (Phlegm): بلغم کی زیادتی یا اس کا فاسد ہو جانا (مثلاً سُدّہ بلغمی خام – obstructive raw phlegm) وجع المفاصل بلغمی کا باعث بنتا ہے۔ یہ وجع المفاصل کی سب سے عام وجہ سمجھی جاتی ہے ()۔ اس قسم کے درد میں جوڑوں میں سختی، بھاری پن ہوتا ہے اور یہ درد سرد اور مرطوب موسم میں بڑھتا ہے ()۔
صفرا (Yellow Bile): صفرا کی زیادتی یا تیزی (مثلاً مرہِ مفرط – simple bilious, صفرائے بلغمی – phlegmatic bile) وجع المفاصل صفراوی پیدا کرتی ہے، جس میں شدید درد، حرارت، اور اکثر سرخی پائی جاتی ہے ()۔
سودا (Black Bile): سودا کی زیادتی یا اس کا غیر طبعی طور پر جل جانا وجع المفاصل سوداوی کا سبب بنتا ہے۔ یہ عام طور پر دائمی جوڑوں کے درد، جوڑوں کی شکل بگڑنے (deformity) اور ان کے افعال میں کمی کا باعث بنتا ہے ()۔
دیگر مادے: مدّہ (پیپ)، ریحِ متشابکہ (پھنسی ہوئی گیسیں)، یا غیر پختہ خون بھی درد کا باعث بن سکتے ہیں۔ بعض اطباء کے مطابق دماغ سے نزول کرنے والا فاسد بلغم یا سودا بھی جوڑوں میں جمع ہو کر درد پیدا کر سکتا ہے ()۔
ثانوی اسباب (اسبابِ منفعلہ یا اسبابِ عارضی – Secondary/Precipitating Causes): یہ وہ عوامل ہیں جو براہِ راست بیماری پیدا نہیں کرتے لیکن جسم یا جوڑوں کو اس طرح کمزور یا متاثر کرتے ہیں کہ وہ فاسد مادوں کو قبول کرنے اور بیماری کا شکار ہونے کے لیے زیادہ مستعد ہو جاتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
ورزش ترک کرنا (ترکِ ریاضت)۔
معدہ کی کمزوری (ضعفِ معدہ) جس سے اخلاط صحیح طور پر ہضم ہو کر جزوِ بدن نہیں بنتے۔
بے ترتیب طرزِ زندگی اور کھانے پینے میں بے اعتدالی۔
کثرتِ شراب نوشی۔
کھانے کے فوراً بعد زیادہ جماع یا سخت ورزش کرنا۔
نزلہ و زکام کا غلط علاج یا دب جانا۔
جوڑوں کی اپنی قوتِ ہاضمہ (digestive power) اور قوتِ دافعہ (expulsive power) کی کمزوری، جس کی وجہ سے جوڑوں میں پہنچنے والے فاسد مادے وہاں سے خارج نہیں ہو پاتے اور جمع ہو کر سڑنے لگتے ہیں، جو وجع المفاصل کا باعث بنتا ہے۔
بعض اطباء کے نزدیک جوڑوں کی ساخت ایسی ہے کہ وہ رطوبات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور جوڑوں کی حرکت سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو مزید رطوبات کو جذب کرتی ہے۔ اگر یہ رطوبات فاسد ہوں تو درد پیدا ہوتا ہے۔ ()۔
یونانی طب میں ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کا سبب صرف ایک مقامی مسئلہ (localized problem) نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے پورے جسم کے نظام، خاص طور پر اخلاط اور مزاج کے عدم توازن کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک کلی (holistic) نقطہ نظر ہے جو جدید طب کے زیادہ مقامی اور مخصوص پیتھالوجی پر مبنی نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ یونانی طب کے مطابق، صحت کی حالت چار بنیادی اخلاط (دم، بلغم، صفرا، سودا) کے درست مقدار اور کیفیت میں موجود رہنے پر منحصر ہے ()۔ جب ان اخلاط میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے، مثلاً بلغم یا سودا کی زیادتی یا خرابی، تو یہ وجع المفاصل جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ()۔ لہٰذا، علاج کا مقصد بھی انہی بگڑے ہوئے اخلاط کو واپس توازن میں لانا اور جسم سے فاسد مادوں کو خارج کرنا ہوتا ہے ()۔ یہ فلسفہ ظاہر کرتا ہے کہ یونانی طب درد کو ایک وسیع تر جسمانی عدم توازن کی علامت کے طور پر دیکھتی ہے۔
“رطوبتِ غریبہ” یا “فاسد مادہ” کا تصور جو یونانی طب میں وجع المفاصل کی ایک اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے، جدید طب کے “سوزشی میڈی ایٹرز” (inflammatory mediators) یا “میٹابولک ویسٹ پراڈکٹس” (metabolic waste products) کے تصور سے کسی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ یونانی طب کے مطابق یہ فاسد مادے جوڑوں میں جمع ہو کر درد اور سوزش پیدا کرتے ہیں ()۔ جدید طب میں بھی سوزشی بیماریاں جیسے آرتھرائٹس میں سائٹوکائنز (cytokines) اور دیگر کیمیائی مادے سوزش اور درد کا باعث بنتے ہیں ()۔ اگرچہ دونوں نظاموں کی اصطلاحات اور نظریاتی بنیادیں مختلف ہیں، لیکن دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کچھ “نقصان دہ مادے” درد کی پیتھالوجی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یونانی طب ان مادوں کو اخلاط کے عدم توازن اور مزاج کے بگاڑ سے جوڑتی ہے، جبکہ جدید طب مخصوص مالیکیولر پاتھ ویز اور سیلولر میکانزم پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
2.3 تشخیص کے اصول
یونانی طب میں تشخیص کا عمل بنیادی طور پر معالج (طبیب) کی حسیاتی مہارتوں، مشاہدے، اور مریض سے تفصیلی گفتگو پر انحصار کرتا ہے۔ ہڈیوں کے درد، خاص طور پر وجع المفاصل، کی تشخیص میں درج ذیل اصول اہم ہیں:
نبض شناسی (Sphygmology/Pulse Diagnosis): نبض دیکھنا یونانی طب میں تشخیص کا ایک انتہائی اہم اور قدیم طریقہ ہے۔ طبیب مریض کی نبض پر انگلیاں رکھ کر اس کی مختلف کیفیات کا جائزہ لیتا ہے، جن میں نبض کی مقدار (لمبائی، چوڑائی، اونچائی/گہرائی)، رفتار (تیز یا سست)، تال (باقاعدہ یا بے قاعدہ)، قوامِ آلتِ نبض (نبض کی نالی کی سختی یا نرمی)، رطوبت یا امتلاء (نبض کا بھرا ہوا یا خالی ہونا)، قوتِ ضرب (نبض کی ٹھوکر کی طاقت)، شکل و موج (نبض کی حرکت کی مخصوص اشکال)، اور لمس کرنے پر شریان کی کیفیت (گرم، سرد، یا معتدل) شامل ہیں ()۔ ان کیفیات سے نہ صرف مریض کے مجموعی مزاج (گرم، سرد، تر، خشک) کا اندازہ لگایا جاتا ہے بلکہ غالب خلط (دم، بلغم، صفرا، سودا) اور بیماری کی نوعیت کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔
گرم و تر (دموی) مزاج کی نبض: عموماً بھری ہوئی، طاقتور، لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میں واضح ہوتی ہے۔ لمس کرنے پر نبض کا مقام گرم محسوس ہوتا ہے ()۔
گرم و خشک (صفراوی) مزاج کی نبض: نسبتاً پرقدرت لیکن دموی نبض سے کچھ نازک، اونچائی اور گہرائی میں مضبوط لیکن چوڑائی اور لمبائی میں کمزور۔ لمس میں گرم و خشک ()۔
سرد و تر (بلغمی) مزاج کی نبض: نسبتاً کمزور، چھوٹی اور سست۔ لمبائی اور اونچائی میں کمزور، لیکن چوڑائی میں قدرے قوی ہو سکتی ہے۔ لمس میں سرد اور نرم ()۔ وجع المفاصل بلغمی میں یہ کیفیات مزید نمایاں ہو سکتی ہیں۔
سرد و خشک (سوداوی) مزاج کی نبض: تنگ، شریان کی دیوار سخت، اور لمبائی، چوڑائی اور اونچائی میں کمزور۔ بعض اوقات دیگر مزاجوں کی نسبت مشکل سے محسوس ہوتی ہے۔ لمس میں خشک اور سرد ()۔
بیماری کی حالت میں نبض میں مخصوص تبدیلیاں آ سکتی ہیں، مثلاً گرم ورم کی صورت میں نبض آری کی طرح (منشاری) اور کانپتی ہوئی (مرتعش) ہو سکتی ہے ()۔
قارورہ شناسی (Uroscopy/Urine Examination): قارورہ (پیشاب) کا معائنہ بھی یونانی طب میں تشخیص کا ایک اہم جزو ہے۔ طبیب پیشاب کے رنگ، بو، قوام (گاڑھا پن)، صفائی یا گدلا پن، اور اس میں موجود تلچھٹ (sediment) کا مشاہدہ کرکے جسم کی اندرونی حالت، اخلاط کے توازن یا بگاڑ، اور بعض اعضاء (خاص طور پر جگر و گردے) کے افعال کا اندازہ لگاتا ہے ()۔ مثال کے طور پر، زردی مائل سرخ قارورہ صفرا کی زیادتی، سفید اور گاڑھا قارورہ بلغم کی زیادتی، اور سیاہی مائل قارورہ سودا کی زیادتی کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔
دیگر علامات کا مشاہدہ:
چہرے کا رنگ (Complexion): چہرے کی رنگت بھی مزاج اور خلطی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے، مثلاً زردی مائل رنگ صفراوی، سفیدی مائل بلغمی، سرخی مائل دموی، اور سیاہی مائل سوداوی مزاج کی علامت ہو سکتا ہے ()۔
زبان کا معائنہ (Tongue Examination): زبان کا رنگ، اس پر جمی ہوئی تہہ (coating)، اور اس کی تری یا خشکی بھی تشخیصی اہمیت رکھتی ہے ()۔
براز کا معائنہ (Stool Examination): پاخانے کی رنگت، بو، اور قوام بھی بعض اوقات مدنظر رکھا جاتا ہے۔
مریض کی بیان کردہ علامات (Patient’s Reported Symptoms): درد کی نوعیت، مقام، شدت، بڑھنے یا کم ہونے کے اوقات، نیند، بھوک، پیاس، اور دیگر جسمانی و نفسیاتی کیفیات کو تفصیل سے سنا اور سمجھا جاتا ہے۔
یونانی طب میں تشخیصی عمل بڑی حد تک معالج کی ذاتی مہارت، تجربے، اور حسیاتی ادراک (sensory perception) پر منحصر ہے۔ یہ جدید طب کے ٹیکنالوجی پر مبنی تشخیصی آلات (जैसे एक्स-रे, एमआरआई) سے بالکل مختلف طریقہ کار ہے۔ نبض اور قارورہ جیسی علامات کی تشریح کے لیے طبیب کا وسیع علم اور گہرا مشاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ()۔ اس طریقہ کار میں معیاریت (standardization) اور تکرار پذیری (reproducibility) ایک چیلنج ہو سکتا ہے، جو جدید سائنسی طریقہ کار کے اہم ستون ہیں۔ تاہم، یہ طریقہ مریض کے ساتھ ایک گہرے اور انفرادی تعلق کی عکاسی بھی کرتا ہے، جہاں معالج مریض کی مجموعی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ صرف بیماری کے لیبل پر انحصار کرتا ہے۔
2.4 علاج کے اصول
یونانی طب میں علاج کا بنیادی مقصد جسم میں اخلاط کے بگڑے ہوئے توازن کو بحال کرنا، فاسد مادوں کو جسم سے خارج کرنا، اور اعضاء کی طبعی افعال کو درست کرنا ہے۔ وجع المفاصل کے علاج میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ علاج کے اہم طریقے درج ذیل ہیں:
علاج بالغذا (Dietotherapy):
یونانی طب میں غذا کو دوا کا درجہ حاصل ہے۔ ہر غذا کا اپنا ایک مزاج (گرم، سرد، تر، خشک) ہوتا ہے۔ وجع المفاصل کے مریض کے لیے اس کی بیماری کی نوعیت، غالب خلط، اور اس کے اپنے مزاج کے مطابق مناسب غذائیں تجویز کی جاتی ہیں اور مضر غذاؤں سے پرہیز کرایا جاتا ہے ()۔
مثال کے طور پر، بلغمی وجع المفاصل (جس میں سردی اور تری غالب ہو) میں عام طور پر بادی، ٹھنڈی، اور کھٹی اشیاء جیسے چاول، گوبھی، آلو، دہی، اور ترش پھلوں سے پرہیز کرایا جاتا ہے۔ گرم اور خشک تاثیر والی غذائیں جیسے کالے چنے اور ان کا شوربہ، لہسن، ادرک، اور گرم مسالے تجویز کیے جاتے ہیں ()۔
اسی طرح سوداوی وجع المفاصل میں گرم تر غذائیں، اور صفراوی وجع المفاصل میں سرد تر غذائیں تجویز کی جا سکتی ہیں ()۔ غذا میں تبدیلی کا مقصد نہ صرف بیماری کے سبب کو دور کرنا ہوتا ہے بلکہ جسم کی قوتِ مدبرہ بدن (جسم کی اندرونی شفا یابی کی طاقت) کو بھی تقویت دینا ہوتا ہے۔
علاج بالدواء (Pharmacotherapy): یونانی طب میں ادویات زیادہ تر قدرتی ذرائع – جڑی بوٹیوں، معدنیات، اور حیوانی اجزاء – سے حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ ادویات مفرد (single drugs) یا مرکب (compound formulations) ہو سکتی ہیں۔
مفرد ادویات (Single Drugs): یہ وہ جڑی بوٹیاں یا قدرتی اجزاء ہیں جن کا ایک خاص مزاج اور مخصوص افعال ہوتے ہیں۔ وجع المفاصل میں عام طور پر استعمال ہونے والی کچھ مفرد ادویات یہ ہیں:
سورنجان شیریں (Colchicum luteum): یہ وجع المفاصل اور خاص طور پر نقرس (Gout) کے لیے مشہور دوا ہے۔ یہ مسکنِ درد (درد کم کرنے والی) اور محللِ اورام (سوجن تحلیل کرنے والی) خصوصیات رکھتی ہے ()۔
اسگندھ ناگوری (Withania somnifera): مقوی اعصاب (اعصاب کو طاقت دینے والی)، دافع درد، اور اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ جسمانی کمزوری اور دردوں میں مفید ہے ()۔
زنجبیل (Ginger – Zingiber officinale): اس کا مزاج گرم و خشک ہے۔ یہ محللِ ریاح (گیس تحلیل کرنے والی)، ضدِ بلغم، اور ہاضم ہے۔ دردِ مفاصل میں اس کا استعمال اندرونی اور بیرونی طور پر (تیل کی مالش) مفید ہے ()۔
ہلدی (Turmeric – Curcuma longa): طاقتور اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات رکھتی ہے۔ خون صاف کرتی ہے، دورانِ خون کو بہتر بناتی ہے، اور جوڑوں کے درد اور سوزش میں انتہائی مفید ہے ()۔
میتھی دانہ (Fenugreek seeds – Trigonella foenum-graecum): ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے، بلغم اور بادی امراض میں مفید ہے۔ اس کا لیپ بھی درد اور سوزش کو کم کرتا ہے ()۔
سملو (Simlo)، مامیخ (Mamikh)، قسط تلخ (Qust Talkh – Saussurea lappa)، رتن جوت (Ratan Jot – Onosma echioides)، ست اجوائن (Sat Ajwain – Thymol): یہ اور دیگر کئی مفردات مختلف نسخہ جات میں ان کی مخصوص خصوصیات کی بنا پر وجع المفاصل کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں ()۔
روغنیات (Medicated Oils): مختلف جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ تیل، جیسے تلسی، یوکلپٹس، ادرک، لیونڈر، ونٹرگرین، اور زیتون کا تیل، متاثرہ جوڑوں پر مالش کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ درد، سوزش، اور اکڑن کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں ()۔
مرکب ادویات (Compound Formulations): یہ وہ ادویات ہیں جو کئی مفرد اجزاء کو ایک خاص ترکیب اور اصول کے تحت ملا کر تیار کی جاتی ہیں تاکہ ان کی افادیت بڑھ جائے اور ممکنہ مضر اثرات کم ہو جائیں۔ وجع المفاصل کے لیے کچھ مشہور مرکبات یہ ہیں:
معجون سورنجان: یہ وجع المفاصل، نقرس، اور کمر درد کے لیے ایک مشہور اور کثیر الاستعمال معجون ہے ()۔
حب گلِ آکھ (Habbe Gule Aakh): ایک یونانی گولی جو آسٹیوآرتھرائٹس کے علاج میں مؤثر پائی گئی ہے، جیسا کہ بعض تحقیقاتی مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے ()۔
حبِ ہندی (Habb-e-Hindi): یہ کمر درد اور جوڑوں کے درد کے لیے ایک اور تحقیق شدہ یونانی دوا ہے ()۔
سفوف اذاراقی: کچلہ (اذاراقی) پر مبنی یہ سفوف وجع المفاصل، نقرس، فالج، اور اعصابی دردوں میں استعمال ہوتا ہے ()۔
روغنِ مہوا/مچوقان: یہ تیل بدن کے جوڑوں اور ہڈیوں کے درد کے لیے بیرونی مالش کے طور پر مفید ہے ()۔ دیگر کئی جوارشات، حبوب، سفوف، اور طلاء (بیرونی استعمال کی دوائیں) بھی وجع المفاصل کی مختلف اقسام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
علاج بالتدبیر (Regimental Therapy): یہ یونانی طب کا ایک اہم طریقہ علاج ہے جس میں مختلف جسمانی طریقہ کار اور تدابیر اختیار کی جاتی ہیں تاکہ جسم سے فاسد مادوں کا اخراج ہو، دورانِ خون بہتر ہو، اعضاء کے افعال درست ہوں، اور قوتِ مدبرہ بدن کو تقویت ملے۔ وجع المفاصل میں درج ذیل تدابیر عام طور پر استعمال ہوتی ہیں:
ریاضت (Therapeutic Exercise): مناسب اور ہلکی ورزش جسم کو متحرک رکھتی ہے، جوڑوں کی سختی کو کم کرتی ہے، اور فاسد مادوں کے اخراج میں مدد دیتی ہے ()۔
دلک (Massage): متاثرہ جوڑوں اور پٹھوں کی مخصوص تیلوں سے مالش کرنا۔ دلک سے دورانِ خون بہتر ہوتا ہے، پٹھوں کو سکون ملتا ہے، درد اور سوزش میں کمی آتی ہے، اور جوڑوں کی حرکت بہتر ہوتی ہے ()۔
تکمید (Fomentation/Hot Compress): گرم کپڑے، نمک کی پوٹلی، یا دیگر دواؤں کی پوٹلی سے متاثرہ حصے کو سینکنا۔ اس سے درد، سختی اور سوزش میں افاقہ ہوتا ہے ()۔
نطول (Irrigation/Pouring of medicated water): مخصوص دواؤں کے نیم گرم جوشاندے کو ایک خاص اونچائی سے متاثرہ جوڑ پر دھار کی صورت میں ڈالنا۔ یہ طریقہ درد اور سوزش کو کم کرنے میں مددگار ہے ()۔
حجامت (Cupping Therapy): یہ ایک قدیم طریقہ علاج ہے جس میں جلد پر کپ لگا کر خلا (vacuum) پیدا کیا جاتا ہے۔ حجامت کی دو قسمیں ہیں: حجامت بلا شرط (خشک کپنگ) اور حجامت بالشرط (تر کپنگ، جس میں جلد پر ہلکے شگاف لگا کر فاسد خون نکالا جاتا ہے)۔ حجامت سے دورانِ خون بہتر ہوتا ہے، فاسد مادے خارج ہوتے ہیں، اور درد و سوزش میں کمی آتی ہے ()۔
فصد (Venesection/Bloodletting): جسم سے فاسد خون نکالنے کا ایک طریقہ، جو خاص طور پر دموی امراض یا جب خون میں فاسد مادوں کی زیادتی ہو، تو استعمال کیا جاتا ہے۔ وجع المفاصل کی بعض اقسام میں بھی مفید ہے ()۔
اسہال (Purgation) و قے (Emesis): مناسب مسہل (دست آور) یا مقئی (قے آور) ادویات کے ذریعے معدے اور آنتوں سے فاسد مادوں کا اخراج کرنا۔ یہ خاص طور پر جب بیماری کی وجہ کوئی فاسد خلط ہو تو کیا جاتا ہے ()۔
دیگر تدابیر: ان میں تعلیق (Leeching – جونکیں لگانا)، حمام (Medicated bath)، ادرارِ بول (Diuresis – پیشاب آور تدابیر)، وغیرہ شامل ہیں، جو بیماری کی نوعیت اور مریض کی حالت کے مطابق اختیار کی جاتی ہیں ()۔
یونانی طریقہ علاج کا بنیادی فلسفہ “اصلاحِ مزاج” (temperament correction) اور “تنقیہِ بدن” (body detoxification) یعنی جسم سے فاسد مادوں کا اخراج ہے۔ یہ علاج صرف علامات کو دبانے کے بجائے بیماری کی جڑ، جو کہ اخلاطی عدم توازن ہے، کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ علاج بالغذا کا مقصد مزاج کو معتدل کرنا اور فاسد اخلاط کی مزید پیداوار کو روکنا ہے ()۔ علاج بالدواء میں مفردات اور مرکبات کا انتخاب بھی ان کے اپنے مزاج اور افعال (مثلاً مُنضِج – اخلاط کو پکانے والی، مُسہِل – دست آور، مُحلِّل – تحلیل کرنے والی) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تاکہ فاسد اخلاط کو پہلے قابلِ اخراج بنایا جائے (پختہ کیا جائے) اور پھر انہیں جسم سے خارج کیا جا سکے یا تحلیل کیا جا سکے ()۔ علاج بالتدبیر کے اکثر طریقے، جیسے فصد، حجامت، اسہال، اور قے، براہِ راست فاسد مادوں کے اخراج پر مبنی ہیں ()۔ یہ ایک جامع حکمت عملی ہے جو بیماری کے سبب (فاسد خلط) اور اس کے اثرات (علامات) دونوں کو نشانہ بناتی ہے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یونانی طب میں ایک ہی بیماری، مثلاً وجع المفاصل، کے مختلف اخلاطی اسباب (بلغمی، سوداوی، صفراوی، دموی) کے لیے مختلف علاج اور تدابیر تجویز کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وجع المفاصل بلغمی کے لیے الگ قسم کے جوشاندے، منضجات اور مسہلات استعمال ہوتے ہیں ()، جبکہ وجع المفاصل صفراوی میں فصد اور ٹھنڈی تاثیر والی دواؤں (مُبرِّدات) پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ()۔ اسی طرح وجع المفاصل سوداوی کے لیے بھی مخصوص منضجات، مسہلات اور فصد کا ذکر ملتا ہے ()۔ یہ طریقہ کار “شخصی علاج” (personalized medicine) کی ایک قدیم شکل ہے، جہاں علاج کا تعین بیماری کے نام سے زیادہ مریض کے غالب خلط، اس کے اپنے مزاج، اور دیگر انفرادی عوامل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
2.5 احتیاطی تدابیر اور حفظانِ صحت کے اصول
یونانی طب میں علاج سے زیادہ پرہیز اور حفظانِ صحت (Hygiene and Preventive Medicine) پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف بیماریوں سے بچاؤ ہے بلکہ مجموعی صحت، توانائی، اور توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ ہڈیوں اور جوڑوں کے درد سمیت دیگر امراض سے بچاؤ کے لیے درج ذیل اصول اہم ہیں:
متوازن اور مناسب غذا: ایسی غذا کا استعمال جو فرد کے اپنے مزاج اور موسم کے مطابق ہو، اور جس میں تمام ضروری غذائی اجزاء شامل ہوں۔ بسیار خوری اور بے وقت کھانے سے پرہیز۔ مناسب مقدار میں صاف پانی پینا ()۔
اسبابِ ستہ ضروریہ کا خیال: یونانی طب کے مطابق صحت کا دارومدار چھ ضروری عوامل (اسبابِ ستہ ضروریہ – Six Essential Factors) پر ہے:
ہوا (Air): صاف اور معتدل آب و ہوا۔
ماکول و مشروب (Food and Drink): مناسب غذا اور پانی۔
حرکت و سکونِ بدنی (Bodily Movement and Rest): مناسب ورزش اور آرام۔
حرکت و سکونِ نفسانی (Mental Movement and Rest): ذہنی سکون، مثبت سوچ، اور منفی جذبات (غصہ، غم، خوف) سے بچاؤ۔
نوم و یقظہ (Sleep and Wakefulness): مناسب اور بروقت نیند اور بیداری۔
استفراغ و احتباس (Evacuation and Retention): جسم سے فاسد مادوں کا طبعی طور پر مناسب اخراج (مثلاً پاخانہ، پیشاب، پسینہ) اور ضروری رطوبات کا جسم میں برقرار رہنا۔ ان چھ عوامل میں توازن صحت کی ضمانت ہے، اور ان میں بگاڑ بیماری کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا، وجع المفاصل سمیت تمام بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ان اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمی: مناسب ورزش نہ صرف پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط رکھتی ہے بلکہ دورانِ خون کو بہتر بناتی ہے اور فاسد مادوں کے اخراج میں بھی مدد دیتی ہے ()۔
فاسد مادوں کے جمع ہونے سے بچاؤ: قبض نہ ہونے دینا، پسینے کا مناسب اخراج، اور دیگر استفراغی تدابیر کا خیال رکھنا۔
مناسب آرام اور نیند: جسم اور دماغ کو مناسب آرام دینا تاکہ وہ اپنی مرمت اور تجدید کر سکیں۔
دھوپ میں بیٹھنا: مناسب وقت کے لیے دھوپ میں بیٹھنا جسم میں وٹامن ڈی کی پیداوار کے لیے ضروری ہے، جو ہڈیوں کی صحت کے لیے اہم ہے ()۔
موسمی تغیرات سے بچاؤ: سردی، گرمی، اور برسات کے موسم میں اپنے مزاج کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرنا۔
یونانی طب میں حفظانِ صحت کا یہ جامع تصور جدید طب کے “طرزِ زندگی کی بیماریوں” (lifestyle diseases) کے نظریے اور ان کی روک تھام کے لیے طرزِ زندگی میں تبدیلیوں کی اہمیت سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ دونوں نظام اس بات پر متفق ہیں کہ صحت مند زندگی گزارنے کے اصول اپنا کر بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے یا ان کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
باب 3: تقابلی جائزہ اور تجزیہ
اس باب میں ہم جدید میڈیکل سائنس اور یونانی طب کے نقطہ نظر کا ہڈیوں کے درد کے حوالے سے ایک تقابلی جائزہ لیں گے، ان کے مشترکہ نکات اور اختلافات کو واضح کریں گے، ہر نظام کی خوبیوں اور حدود پر روشنی ڈالیں گے، اور ایک مربوط نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔
3.1 وجوہات، تشخیص اور علاج کے طریقوں کا موازنہ
پہلو
جدید میڈیکل سائنس کا نقطہ نظر
یونانی طب کا نقطہ نظر
وجوہات
مخصوص پیتھوفزیولوجیکل عوامل: جراثیم، چوٹ، جینیات، مدافعتی نظام کی خرابی، انحطاطی تبدیلیاں، معدنیات کی کمی ()
اخلاط (بلغم، سودا، صفرا، دم) کا عدم توازن، سوءِ مزاج (مزاج کا بگاڑ)، فاسد مادوں کا جوڑوں میں جمع ہونا ()
تشخیص
معروضی ٹیسٹ: خون کے ٹیسٹ، ایکسرے، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، بون اسکین، بایوپسی۔ مریض کی بیان کردہ علامات اور طبی تاریخ ()
معالج کی حسیاتی مہارت: نبض شناسی، قارورہ شناسی، چہرے اور زبان کا معائنہ۔ مریض کی بیان کردہ علامات کی اخلاطی تشریح ()
علاج
ہدفی ادویات: درد کش (Analgesics)، اینٹی انفلیمیٹری (NSAIDs, Steroids)، بیماری میں ترمیم کرنے والی ادویات (DMARDs, Biologics)، اینٹی بائیوٹکس۔ فزیوتھراپی، سرجری، طرزِ زندگی میں تبدیلیاں ()
کلی علاج: علاج بالغذا (غذائی پرہیز و تجویز)، علاج بالدواء (مفرد و مرکب جڑی بوٹیاں)، علاج بالتدبیر (حجامت، فصد، دلک، ریاضت، وغیرہ) ()
3.2 مشترکہ نکات اور اختلافات
مشترکہ نکات:
دونوں طبی نظام ہڈیوں کے درد کو ایک اہم اور قابلِ توجہ طبی مسئلہ سمجھتے ہیں۔
دونوں نظام طرزِ زندگی کے عوامل، خاص طور پر غذا اور ورزش، کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، اگرچہ ان کی تفصیلات اور نظریاتی بنیادیں مختلف ہو سکتی ہیں ()۔
دونوں نظام انفیکشن اور سوزش کو درد کی ممکنہ وجوہات میں شمار کرتے ہیں، لیکن ان کی تشریح اور علاج کا طریقہ مختلف ہے۔
متاثرہ حصے کو آرام دینے اور مزید نقصان سے بچانے کی اہمیت پر دونوں متفق ہیں۔ ()۔
اختلافات:
بنیادی فلسفہ: جدید طب کا نقطہ نظر زیادہ تر ریڈکشنسٹ (reductionist) ہے، یعنی وہ بیماری کو مخصوص اعضاء یا خلیات کی سطح پر خرابی کے طور پر دیکھتی ہے، اور اس کا ماڈل زیادہ میکانکی (mechanistic) ہے۔ اس کے برعکس، یونانی طب کا نقطہ نظر کلی (holistic) ہے، جو پورے جسم کو ایک واحد نظام کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کا ماڈل زیادہ حیاتیاتی (vitalistic) ہے، جو جسم کی اندرونی قوتِ مدبرہ بدن پر یقین رکھتا ہے۔
تشخیصی آلات: جدید طب تشخیصی عمل میں ٹیکنالوجی (مثلاً امیجنگ، لیبارٹری ٹیسٹ) پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جبکہ یونانی طب میں تشخیص بنیادی طور پر معالج کی حسیاتی مہارتوں (نبض، قارورہ، مشاہدہ) اور تجربے پر مبنی ہے۔
علاج کی نوعیت: جدید طب میں علاج کے لیے زیادہ تر کیمیائی طور پر تیار کردہ ادویات اور جراحی کے طریقے استعمال ہوتے ہیں، جبکہ یونانی طب قدرتی ذرائع (جڑی بوٹیاں، معدنیات) سے حاصل کردہ ادویات اور مختلف جسمانی تدابیر (regimental therapies) پر انحصار کرتی ہے۔
انفرادیت پسندی (Individualization): جدید طب میں اکثر بیماری کی بنیاد پر معیاری علاج کے پروٹوکول (standard treatment protocols) استعمال ہوتے ہیں، اگرچہ پرسنلائزڈ میڈیسن کا تصور ابھر رہا ہے۔ یونانی طب میں علاج ہمیشہ سے ہی انتہائی انفرادی نوعیت کا رہا ہے، جہاں ہر مریض کا علاج اس کے اپنے مخصوص مزاج، غالب خلط، اور بیماری کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
3.3 ہر نظام کی اپنی خوبیاں اور ممکنہ حدود
جدید میڈیکل سائنس:
خوبیاں:
شدید اور ہنگامی حالات (acute and emergency conditions) جیسے شدید چوٹ، فریکچر، یا سنگین انفیکشن کے علاج میں انتہائی مؤثر ہے۔
تشخیصی ٹیکنالوجی کی بدولت بیماریوں کی دقیق اور معروضی تشخیص ممکن ہے۔
علاج کے طریقے سائنسی تحقیق اور کلینیکل ٹرائلز پر مبنی ہوتے ہیں (شواہد پر مبنی طب – Evidence-Based Medicine)۔
جراحی (Surgery) کے ذریعے بہت سے ایسے مسائل کا حل ممکن ہے جو صرف دواؤں سے ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
بیماریوں کے میکانزم کو مالیکیولر سطح پر سمجھنے میں گہری بصیرت۔
حدود:
دائمی امراض (chronic diseases) میں بعض اوقات علاج صرف علامتی ریلیف تک محدود رہتا ہے اور بیماری کی جڑ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی۔
کیمیائی ادویات کے ضمنی اثرات (side effects) ہو سکتے ہیں، بعض اوقات شدید بھی۔
علاج اکثر مہنگا ہوتا ہے اور ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہوتا۔
بعض اوقات مریض کے مجموعی وجود (جسمانی، ذہنی، روحانی پہلو) اور اس کے ماحول پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔
یونانی طب:
خوبیاں:
دائمی امراض، خاص طور پر طرزِ زندگی سے متعلق بیماریوں اور عضلاتی و استخوانی تکالیف میں مؤثر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
علاج میں قدرتی اجزاء اور طریقوں پر زور دیا جاتا ہے، جس سے ضمنی اثرات کا امکان کم ہوتا ہے (اگر مستند اور ماہر طبیب کی زیرِ نگرانی علاج کیا جائے)۔
علاج نسبتاً کم خرچ ہو سکتا ہے۔
مریض پر انفرادی توجہ دی جاتی ہے اور اس کے مزاج اور مجموعی کیفیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے (کلی نقطہ نظر)۔
حفظانِ صحت اور پرہیز پر بہت زور دیا جاتا ہے، جو بیماریوں سے بچاؤ میں اہم ہے۔
حدود:
شدید اور ہنگامی طبی حالات میں اس کا کردار محدود ہے۔
تشخیصی طریقوں (نبض، قارورہ) کی معروضیت (objectivity) اور معیاریت (standardization) کا فقدان ہے، اور یہ زیادہ تر معالج کی ذاتی مہارت اور تجربے پر منحصر ہیں۔
بہت سے یونانی علاجوں اور دواؤں کی افادیت اور حفاظت کے حوالے سے جدید سائنسی شواہد اور کلینیکل ٹرائلز کی کمی ہے۔ (تاہم، CCRUM اور NIUM جیسے ادارے اس ضمن میں کام کر رہے ہیں – )۔
مستند اور تربیت یافتہ یونانی اطباء کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔
بعض اوقات علاج میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
3.4 مریض کے لیے مربوط نقطہ نظر کی اہمیت
ہڈیوں کے درد سمیت دیگر کئی امراض کے علاج میں کسی ایک طبی نظام کو مکمل طور پر درست یا غلط قرار دینا مناسب نہیں۔ ہر نظام کی اپنی خوبیاں اور حدود ہیں۔ مریض کی بہترین ممکنہ دیکھ بھال کے لیے ایک مربوط (integrative) نقطہ نظر اپنانا زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، جہاں دونوں نظاموں کی طاقتوں کو استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر:
جدید تشخیصی ٹیکنالوجی سے بیماری کی دقیق تشخیص کے بعد، اگر مناسب ہو تو، یونانی علاج یا طرزِ زندگی کی سفارشات کو اپنایا جا سکتا ہے۔
دائمی درد کے انتظام میں، جہاں جدید ادویات کے طویل مدتی استعمال سے ضمنی اثرات کا خدشہ ہو، وہاں مستند یونانی طبیب کے مشورے سے محفوظ جڑی بوٹیوں یا تدابیر (جیسے دلک، تکمید) کو معاون علاج کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جدید طب کے ماہرین اور یونانی اطباء کے درمیان بہتر संवाद اور باہمی احترام کی فضا قائم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مریض کے بہترین مفاد میں مل کر کام کر سکیں۔
جدید طب اور یونانی طب کا بنیادی اختلاف “بیماری” کے تصور میں پایا جاتا ہے۔ جدید طب بیماری کو ایک مخصوص عضوی خرابی، جینیاتی نقص، یا کسی بیرونی عامل (जैसे پیتھوجین) کے حملے کے طور پر دیکھتی ہے۔ مثال کے طور پر، آسٹیوآرتھرائٹس کو جوڑوں کے کارٹلیج کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے ()۔ اس کے برعکس، یونانی طب بیماری کو جسم کے اندرونی توازن، یعنی اخلاط و مزاج، کے بگاڑ کا نتیجہ سمجھتی ہے۔ وجع المفاصل، جو آسٹیوآرتھرائٹس سے مشابہت رکھتا ہے، کی وجہ غالب بلغم یا دیگر فاسد اخلاط کا جوڑوں میں جمع ہونا ہو سکتا ہے ()۔ یہ بنیادی نظریاتی اختلاف تشخیص سے لے کر علاج تک ہر پہلو پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جدید علاج NSAIDs یا جوڑ کی تبدیلی پر مرکوز ہو سکتا ہے ()، جبکہ یونانی علاج بلغم کو خارج کرنے والی ادویات، گرم خشک غذائیں، اور مناسب تدابیر (جیسے فصد، اسہال) پر مشتمل ہو گا ()۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ایک ہی حالت کو دونوں نظام مختلف نظریاتی عینک سے دیکھتے اور اس کا علاج کرتے ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ “شواہد پر مبنی طب” (Evidence-Based Medicine) کا تصور ہے جو جدید طب کا خاصہ ہے۔ جدید طب میں کسی بھی علاج کی افادیت کو سخت کلینیکل ٹرائلز اور شماریاتی تجزیوں کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف، یونانی طب میں علاج زیادہ تر تجرباتی مشاہدات، قیاس، اور نسل در نسل منتقل ہونے والے روایتی علم (“مجربات” یعنی آزمودہ نسخے) پر مبنی ہے۔ تاہم، اب ہندوستان اور پاکستان میں سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن (CCRUM) اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (NIUM) جیسے ادارے یونانی علاج اور فارمولیشنز (مثلاً حبِ گلِ آکھ، حبِ ہندی) کو جدید سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز اور تحقیقی مطالعات کر رہے ہیں ()۔ یہ کوششیں یونانی طب کو جدید سائنسی معیارات کے قریب لانے، اس کی افادیت کو معروضی طور پر ثابت کرنے، اور مستقبل میں دونوں طبی نظاموں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم اور انضمام (integration) کا باعث بن سکتی ہیں، جس سے مریضوں کے لیے علاج کے نئے اور بہتر دروازے کھل سکتے ہیں۔
جدول 4: ہڈیوں کے درد کے لیے عام یونانی مفردات و مرکبات
دوا کا نام (اردو)
دوا کا نام (انگریزی/سائنسی)
ممکنہ افعال
مزاج (عمومی)
عام استعمال
حوالہ جات
مفرد ادویات
سورنجان شیریں
Colchicum luteum
مسکن درد، محللِ اورام، دافع نقرس
گرم و خشک معتدل
وجع المفاصل، نقرس، کمر درد
()
اسگندھ ناگوری
Withania somnifera
مقوی اعصاب، مسکن درد، اینٹی انفلیمیٹری
گرم و خشک
اعصابی کمزوری، جوڑوں کا درد، عام جسمانی کمزوری
()
زنجبیل
Zingiber officinale
محلل ریاح، ہاضم، ضد بلغم، مسخن، محرک
گرم و خشک
بلغمی امراض، درد مفاصل (خاص طور پر سردی سے)، ریاحی درد، بدہضمی
()
ہلدی
Curcuma longa
اینٹی انفلیمیٹری، مصفی خون، محلل اورام
گرم و خشک
جوڑوں کی سوزش، درد، چوٹ، اندرونی زخم
()
میتھی دانہ
Trigonella foenum-graecum
مقوی ہڈی، محلل بلغم، مسخن
گرم و خشک
بلغمی و بادی امراض، جوڑوں کا درد، ہڈیوں کی کمزوری
()
روغنِ زیتون
Olive Oil
ملین، محلل، جلد کو نرم کرنے والا
گرم و تر
بیرونی مالش برائے درد مفاصل، خشکی
()
مرکب ادویات
معجون سورنجان
Compound Formulation
مسکن درد، دافع وجع المفاصل و نقرس
مرکب القویٰ
وجع المفاصل، نقرس، عرق النساء، کمر درد
()
حبِ گلِ آکھ
Compound Formulation
اینٹی انفلیمیٹری، مسکن درد
مرکب القویٰ
آسٹیوآرتھرائٹس، جوڑوں کا درد
()
سفوف اذاراقی
Compound Formulation
مقوی اعصاب، مسکن درد
مرکب القویٰ
وجع المفاصل، نقرس، فالج، لقوہ، اعصابی درد
()
روغنِ مہوا/مچوقان
Compound Oil
مسکن درد، محلل (بیرونی)
مرکب القویٰ
جوڑوں اور ہڈیوں کے درد کی بیرونی مالش
()
نوٹ: مزاج اور افعال دوا کی ترکیب اور استعمال کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی دوا کا استعمال مستند طبیب کے مشورے کے بغیر نہ کریں۔
جدول 5: دونوں طبی نظاموں کے تحت غذائی پرہیز اور سفارشات کا تقابلی جائزہ
غذائی عنصر/گروپ
جدید طب کی سفارش (خاص حالتوں میں)
یونانی طب کی سفارش (مختلف اخلاطی حالتوں میں)
حوالہ جات (مثالیں)
کیلشیم سے بھرپور غذائیں (دودھ، دہی، پنیر، سبز پتوں والی سبزیاں)
آسٹیوپوروسس سے بچاؤ اور علاج، فریکچر کی بحالی کے لیے انتہائی اہم ()
عمومی صحت کے لیے مفید، لیکن بلغمی مزاج یا بلغمی وجع المفاصل میں دودھ اور دہی سے پرہیز یا احتیاط کی تاکید ()
()
وٹامن ڈی (تیل والی مچھلی، انڈے کی زردی، دھوپ)
کیلشیم کے جذب اور ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری ()
عمومی صحت اور قوتِ مدافعت کے لیے اہم، دھوپ میں بیٹھنے کی تاکید ()
()
پروٹین سے بھرپور غذائیں (گوشت، مچھلی، انڈے، دالیں)
فریکچر کی بحالی اور پٹھوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ()
گوشت (خاص طور پر بڑا گوشت) بعض اقسام کے وجع المفاصل (مثلاً دموی یا نقرس) میں مضر ہو سکتا ہے۔ دالیں بھی بادی ہونے کی وجہ سے بلغمی امراض میں احتیاط سے استعمال کی جاتی ہیں ()
()
پھل اور سبزیاں
مجموعی صحت، وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کے لیے مفید ()
مزاج کے مطابق پھل اور سبزیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ مثلاً سرد مزاج والوں کو گرم تاثیر والے پھل، اور گرم مزاج والوں کو سرد تاثیر والے ()
()
الکحل
ہڈیوں کی صحت کے لیے مضر، فریکچر کی بحالی کو سست کرتا ہے، گرنے کا خطرہ بڑھاتا ہے ()
عام طور پر مضر صحت اور اخلاط میں بگاڑ کا باعث سمجھا جاتا ہے، پرہیز کی تاکید ()
()
کیفین (چائے، کافی)
زیادہ مقدار کیلشیم کے اخراج کو بڑھا سکتی ہے، فریکچر کی بحالی میں احتیاط ()
بعض صورتوں میں محرک کے طور پر، لیکن زیادہ استعمال سے خشکی بڑھ سکتی ہے، مزاج کے مطابق استعمال
()
نمک
زیادہ مقدار کیلشیم میٹابولزم کو متاثر کر سکتی ہے، فریکچر کی بحالی میں کم استعمال کی ہدایت ()
زیادہ نمک سے پرہیز، خاص طور پر بلند فشارِ خون اور بعض دیگر امراض میں
()
چاول، آلو، گوبھی
عام طور پر متوازن غذا کا حصہ، لیکن زیادہ استعمال سے وزن بڑھ سکتا ہے
بلغمی اور بادی امراض (بشمول وجع المفاصل) میں ان سے پرہیز کی تاکید کی جاتی ہے کیونکہ یہ بلغم اور ریاح پیدا کرتے ہیں ()
()
بادی اور کھٹی اشیاء
مخصوص طبی حالتوں (مثلاً گاؤٹ میں کچھ کھٹی اشیاء) کے علاوہ عمومی ممانعت نہیں
بلغمی اور سوداوی امراض، اور وجع المفاصل میں عموماً ان سے پرہیز کرایا جاتا ہے ()
()
اختتامیہ و سفارشات
اس تفصیلی جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہڈیوں کا درد ایک پیچیدہ طبی مسئلہ ہے جس کے لیے جدید میڈیکل سائنس اور یونانی طب، دونوں اپنے اپنے منفرد نظریات، تشخیصی طریقوں، اور علاجی حکمت عملیوں کے ساتھ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ کے اہم نتائج کا خلاصہ:
جدید میڈیکل سائنس ہڈیوں کے درد کی وجوہات کو مخصوص پیتھوفزیولوجیکل عوامل (جیسے چوٹ، انفیکشن، معدنیات کی کمی، کینسر) سے منسوب کرتی ہے اور اس کی تشخیص کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معروضی ٹیسٹ (ایکسرے، ایم آر آئی، خون کے ٹیسٹ) استعمال کرتی ہے۔ علاج میں ہدفی ادویات (درد کش، اینٹی انفلیمیٹری، بائیولوجکس)، فزیوتھراپی، اور ضرورت پڑنے پر سرجری شامل ہیں۔ جدید طب خاص طور پر شدید اور ہنگامی حالات میں، اور بیماریوں کی دقیق تشخیص میں انتہائی مؤثر ہے۔
یونانی طب ہڈیوں کے درد (خاص طور پر وجع المفاصل) کو جسم کے بنیادی اخلاط (دم، بلغم، صفرا، سودا) کے عدم توازن اور فاسد مادوں کے جمع ہونے کا نتیجہ سمجھتی ہے۔ تشخیص بنیادی طور پر معالج کی حسیاتی مہارتوں (نبض شناسی، قارورہ شناسی) اور مریض کی مجموعی علامات پر مبنی ہوتی ہے۔ علاج ایک کلی نقطہ نظر اپناتا ہے جس میں علاج بالغذا (غذائی پرہیز و تجویز)، علاج بالدواء (قدرتی جڑی بوٹیوں اور مرکبات کا استعمال)، اور علاج بالتدبیر (مختلف جسمانی طریقہ علاج جیسے حجامت، فصد، دلک) شامل ہیں۔ یونانی طب خاص طور پر دائمی مسائل کے انتظام اور مجموعی صحت کی بحالی میں ایک جامع حکمت عملی پیش کرتی ہے۔
دونوں نظاموں میں کچھ مشترکہ نکات بھی پائے جاتے ہیں، جیسے طرزِ زندگی (غذا، ورزش) کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور درد کو ایک قابلِ توجہ علامت سمجھنا۔ تاہم، ان کے بنیادی فلسفے، تشخیصی آلات، اور علاج کی نوعیت میں واضح اختلافات موجود ہیں۔
ہڈیوں کے درد سے بچاؤ اور انتظام کے لیے عمومی سفارشات:
متوازن غذا: اپنی روزمرہ کی خوراک میں کیلشیم، وٹامن ڈی، اور پروٹین سے بھرپور غذاؤں کو شامل کریں۔ دودھ، دہی، پنیر، سبز پتوں والی سبزیاں، پھل، اور تیل والی مچھلی مفید ہیں۔ مناسب مقدار میں پانی پئیں۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمی: اپنے معمولات میں ہلکی سے درمیانی شدت کی ورزش، خاص طور پر وزن اٹھانے والی سرگرمیاں اور لچک پیدا کرنے والی ورزشیں شامل کریں تاکہ ہڈیاں اور پٹھے مضبوط رہیں۔ صحت مند وزن برقرار رکھیں۔
نقصان دہ عادات سے پرہیز: تمباکو نوشی اور الکحل کے زیادہ استعمال سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ یہ ہڈیوں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
بروقت طبی مشورہ: ہڈیوں یا جوڑوں میں کسی بھی قسم کے مسلسل یا شدید درد کو نظر انداز نہ کریں۔ خود علاجی سے گریز کریں اور فوری طور پر کسی مستند معالج (جدید ڈاکٹر یا یونانی طبیب) سے رجوع کریں۔
مربوط علاج کی صورت میں آگاہی: اگر آپ بیک وقت دونوں طبی نظاموں سے علاج کروا رہے ہوں تو اپنے دونوں معالجین کو ایک دوسرے کے تجویز کردہ علاج اور ادویات سے مکمل طور پر آگاہ رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ممکنہ منفی تعاملات (drug interactions) سے بچا جا سکے۔
مزید تحقیق اور آگاہی کی ضرورت:
یونانی طبی طریقوں، جڑی بوٹیوں، اور مرکبات کی افادیت، حفاظت، اور میکانزم آف ایکشن پر مزید سخت اور معیاری سائنسی تحقیق کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے کردار کو جدید طبی تناظر میں بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ CCRUM اور NIUM جیسے ادارے اس سمت میں قابلِ قدر کام کر رہے ہیں جسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
عوام الناس میں دونوں طبی نظاموں کے بارے میں درست، متوازن، اور غیر جانبدارانہ معلومات اور آگاہی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی صحت کے بارے میں باخبر فیصلے کر سکیں۔
مستقبل میں ایسے مربوط طبی مراکز (integrative healthcare centers) کے قیام کے امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے جہاں جدید اور یونانی طب کے ماہرین باہمی تعاون سے مریضوں کو ان کی انفرادی ضروریات کے مطابق بہترین ممکنہ علاج فراہم کر سکیں۔
ہڈیوں کے درد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی ایک “واحد بہترین” طریقہ شاید موجود نہ ہو۔ مریض کی انفرادی ضروریات، درد کی نوعیت اور شدت، اس کا ثقافتی پس منظر، ذاتی ترجیحات، اور دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط، لچکدار، اور مریض مرکز (patient-centered) نقطہ نظر اپنانا زیادہ مفید اور مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ جدید طب فوری ریلیف اور جان بچانے والے علاج (مثلاً شدید فریکچر یا سنگین انفیکشن کی صورت میں) فراہم کر سکتی ہے، جبکہ یونانی طب دائمی درد کے طویل مدتی انتظام، طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی ترغیب، اور ممکنہ طور پر کم ضمنی اثرات والے علاج کے ذریعے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں طبی نظاموں کے معالجین کے درمیان بہتر संवाद، باہمی احترام، اور ایک دوسرے کے علم و تجربے سے استفادہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ناگزیر ہے۔