پاک و ہند  کی میو برادری میں تعلیمی حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں

0 comment 55 views

پاک و ہند  کی میو برادری میں تعلیمی حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں

Advertisements

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔

 تعلیم کی حالت: دو ملکوں کی کہانی

میو برادری کی تعلیمی حالت ہندوستان اور پاکستان میں بالکل مختلف ریاستی اور سماجی تناظر میں پروان چڑھی ہے۔ ہندوستان میں، یہ ایک جغرافیائی طور پر مرتکز اور نظر انداز کی گئی اقلیت کی کہانی ہے، جبکہ پاکستان میں، یہ ایک منتشر اور بڑی حد تک ضم ہو چکی برادری کی کہانی ہے

جو قومی تعلیمی نظام کے وسیع تر مسائل کا شکار ہے۔

جدول: میو برادری میں تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا زمرہ وار تجزیہ

رکاوٹ کا زمرہہندوستان میں مخصوص مظہر (میوات)پاکستان میں مخصوص مظہر (پنجاب/سندھ)
تاریخیجنگجو ثقافت کی میراث؛ تقسیم کا صدمہ اور شناخت کا بحران۔تقسیم کا صدمہ؛ آبائی وطن سے ثقافتی اور لسانی انقطاع۔
سماجی و اقتصادیشدید غربت اور علاقائی پسماندگی؛ تعلیم کی ناقابل برداشت موقعی لاگت۔دیہی غربت؛ منتشر آبادی کی وجہ سے معاشی مواقع کی کمی۔
ثقافتی-مذہبیپدرانہ اقدار؛ کم عمری کی شادی؛ تبلیغی جماعت کے تعلیمی نظریے کا غلبہ۔وسیع تر پنجابی/سندھی مسلم ثقافت میں انضمام؛ میواتی شناخت کا بتدریج خاتمہ۔
نظامی/ریاستی سطحبنیادی ڈھانچے کی شدید کمی اور ریاستی نظر اندازی؛ ناقص معیار کے اسکول۔قومی تعلیمی نظام کی عمومی ناکامی؛ پالیسی میں عدم موجودگی اور نظر اندازی۔

میوات، ہندوستان میں تعلیمی چیلنجز

ہندوستان کے میوات علاقے میں میو برادری کو درپیش تعلیمی چیلنجز شدید اور کثیر جہتی ہیں، جو دہائیوں کی ریاستی نظر اندازی، گہری غربت اور مخصوص ثقافتی عوامل کا نتیجہ ہیں۔

منظم نظر اندازی اور بنیادی ڈھانچے کا فقدان

میوات کو مسلسل ہندوستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے، جو تعلیم سمیت تمام ترقیاتی پیرامیٹرز پر بہت پیچھے ہے 4۔ یہاں اسکولوں کی شدید کمی ہے، اور جو موجود ہیں ان کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی ناقص ہے 14۔ مناسب تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کو بھی محدود کر دیتی ہے 28۔

کم تعلیمی حصول

خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دس میں سے صرف ایک میو فرد صحیح طریقے سے پڑھ اور لکھ سکتا ہے 4۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق میوات میں مجموعی شرح

خواندگی 53.2 فیصد تھی، جو قومی اوسط سے بہت کم ہے 17۔

شدید صنفی عدم مساوات

خواتین کی تعلیم ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ میو برادری میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 33.98 فیصد بتائی گئی ہے، جبکہ مردوں کی شرح 69.47 فیصد ہے 17۔ کچھ رپورٹس کے مطابق میو مسلم لڑکیوں کا اسکولوں میں تناسب 1 فیصد سے بھی کم ہے 17۔ اسکولوں تک رسائی کی کمی خواتین کی کم شرح خواندگی کی ایک بڑی وجہ ہے 17۔

ثقافتی رکاوٹیں

پدرانہ ثقافت تعلیم کو، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، ترجیح نہیں دیتی 17۔ کم عمری کی شادی کا رواج تعلیمی مواقع کو محدود کرنے والا ایک اہم عنصر ہے 17۔ اس کے علاوہ، برادری میں رسمی، جدید تعلیم (دنیاوی تعلیم) پر مذہبی تعلیم (دینی تعلیم) کو ترجیح دینے کا رجحان پایا جاتا ہے 17۔

نصاب کا عدم تطابق

معیاری، رسمی اسکول کا نصاب اکثر طلباء کی سماجی و ثقافتی حقیقت سے منقطع محسوس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اسکولنگ سے بیگانہ ہو جاتے ہیں 29۔ یہ نصاب اکثر غالب ثقافت کی اقدار کی عکاسی کرتا ہے اور مقامی تناظر کو شامل کرنے میں ناکام رہتا ہے 29۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ “مذہبی تعلیم کو ترجیح” دینا دراصل ریاست کی ناکامی کا ایک लक्षण ہے۔ برادری کا مدارس اور دینی تعلیم کی طرف رجحان صرف ایک ثقافتی انتخاب نہیں، بلکہ ایک ایسے عوامی تعلیمی نظام کے خلاف ایک عملی ردعمل ہے جو زیادہ تر غیر فعال، غیر موجود اور اجنبی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو ایک اعلیٰ معیار کے، قابل رسائی اور ثقافتی طور پر حساس سیکولر اسکول کے بجائے دینی تعلیم کا انتخاب نہیں کر رہے؛ وہ اسے ایک غیر موجود یا ناکام سیکولر اسکول کے مقابلے میں منتخب کر رہے ہیں۔ یہ “ترجیح” ریاستی ناکامی سے پیدا ہونے والے خلا میں کیا جانے والا ایک انتخاب ہے۔

پنجاب، پاکستان میں نظام سے نمٹنا

پاکستان میں میو برادری کی تعلیمی صورتحال ان کی منتشر آبادی اور قومی تعلیمی نظام کے وسیع تر مسائل سے تشکیل پاتی ہے۔ یہاں ان کا مسئلہ نظر اندازی سے زیادہ “عدم موجودگی” کا ہے۔

منتشر آبادکاری کا اثر

ہندوستان کے برعکس، پاکستان میں میو ایک منتشر آبادی ہیں، جس کی وجہ سے ثقافتی اور لسانی تحفظ مشکل ہو جاتا ہے اور ایک مضبوط سیاسی لابی کی تشکیل محدود ہو جاتی ہے 16۔

انضمام اور شناخت کا خاتمہ

پاکستان میں، میوؤں نے بڑی حد تک اپنی الگ گروہی شناخت اور ثقافتی روایات کو کھو دیا ہے اور وہ وسیع تر مسلم آبادی میں ضم ہو گئے ہیں 1۔ بہت سے لوگ، احساس کمتری کی وجہ سے، خود کو میو کے بجائے راؤ، خان یا چوہدری کہلوانا پسند کرتے ہیں 16۔

پاکستانی تعلیمی نظام کے عمومی چیلنجز

میو برادری پاکستان کے تعلیمی شعبے کو درپیش نظامی مسائل کا شکار ہے:

رسائی اور معیار: پاکستان دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد والے ممالک میں سے ایک ہے (تقریباً 22.7 سے 26.2 ملین) 40۔ یہ نظام کم معیار، رٹہ لگانے، پرانے نصاب اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا شکار ہے 36۔

دیہی-شہری اور صنفی فرق: دیہی اور شہری علاقوں اور جنسوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں، وسائل اور اہل اساتذہ کی کمی ہے 32۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول جانے کا امکان بہت کم ہے 34۔

غربت ایک بڑی رکاوٹ: پاکستان میں بچوں کو اسکول سے دور رکھنے والا سب سے بڑا عنصر غربت ہے 34۔

میو اکثریتی اضلاع میں خواندگی

اگرچہ میو برادری کے لیے مخصوص اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن میو آبادی والے اضلاع (جیسے قصور) میں عمومی شرح خواندگی پنجاب کی صوبائی شماریات کا حصہ ہے، جس کی شرح خواندگی تقریباً 70.5 فیصد (2023) ہے 44۔ تاہم، یہ صوبائی اوسط دیہی-شہری تفاوت کو چھپا دیتی ہے، اور جن دیہی علاقوں میں میو بنیادی طور پر رہتے ہیں، وہاں یہ شرح بہت کم ہو گی۔

پاکستان میں میوؤں کا تعلیمی مسئلہ “عدم موجودگی” کا ہے۔ ہندوستان کے برعکس جہاں میو ایک تسلیم شدہ، جغرافیائی طور پر مرتکز “پسماندہ” برادری ہیں، پاکستان میں وہ ایک آبادیاتی طور پر منتشر اور ثقافتی طور پر ضم شدہ گروہ ہیں۔ اس لیے ان کے مخصوص تعلیمی چیلنجز پالیسی سازوں کی نظروں سے اوجھل ہیں اور دیہی پنجاب کے بڑے، عمومی مسائل میں گم ہو گئے ہیں۔ ان کی تعلیمی حیثیت میں کوئی بھی بہتری دیہی پاکستان کے پورے عوامی تعلیمی نظام کی سست، وسیع البنیاد بہتری پر منحصر ہے، جو ایک بدنام زمانہ مشکل اور کم فنڈ یافتہ کوشش ہے۔

ترقی کی راہیں: لچک، اصلاحات اور سفارشات

تاریخی صدمات، معاشی بدحالی اور ریاستی نظر اندازی کے باوجود، میو برادری میں تعلیم کے حوالے سے تبدیلی کی خواہش اور لچک کے آثار نمایاں ہیں۔ اندرونی کوششوں اور بیرونی حمایت نے یہ ثابت کیا ہے کہ تعلیمی پسماندگی کا یہ چکر توڑا جا سکتا ہے۔

 تبدیلی کے بیج: کمیونٹی کے اقدامات اور بیرونی حمایت

کمیونٹی کی لچک اور قیادت

تمام چیلنجز کے باوجود، برادری کے اندر سے تبدیلی کی خواہش اور کوششیں ابھر رہی ہیں۔

حکیم عبدالشکور اور قاری محمد یونس شاہد میو جیسے میو مصنفین اور علماء کا ظہور، جنہوں نے میو تاریخ پر لکھا اور قرآن کا میواتی میں ترجمہ کیا، ایک ابھرتی ہوئی دانشورانہ روایت کی نشاندہی کرتا ہے 5۔

پاکستان میں ‘انجمن اتحاد و ترقی میوات پاکستان’ اور ‘پاکستان میو اتحاد’ سعد ورچوئل سکلز پاکستان جیسی کمیونٹی تنظیمیں شناخت کے تحفظ اور حقوق کی وکالت کے لیے قائم کی گئی ہیں 16۔

ہندوستان میں، لڑکیاں اور ان کے خاندان تعلیم کے حصول کے لیے روایات کو توڑ رہے ہیں، جن میں سے کچھ اساتذہ بن رہی ہیں اور ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتی ہیں 39۔

این جی اوز اور سول سوسائٹی کا کردار

غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے ریاست کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ہندوستان میں: متسیہ میوات شکشا ایوم وکاس سنستھان (MMSVS) نے راجستھان کے ٹھیکرا گاؤں میں ایک اسکول قائم کرنے کے لیے گاؤں والوں کو کامیابی سے قائل کیا، جس نے مذہبی اور رسمی تعلیم کو ملا کر خواتین کی خواندگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا 39۔

پاکستان میں: دی سٹیزنز فاؤنڈیشن (TCF)، معاون فاؤنڈیشن اور سوسائٹی فار دی ایڈوانسمنٹ آف ایجوکیشن (SAHE) جیسی تنظیمیں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں اسکول چلا رہی ہیں، جن میں شیخوپورہ اور لاہور جیسے میو آبادی والے اضلاع بھی شامل ہیں 47۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے ذریعے کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے تعلیم کی مالی معاونت کرتی ہے 50۔

کامیاب مداخلتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی راہ میں “ثقافتی رکاوٹ” کو ایک حساس اور مقامی ثقافت سے ہم آہنگ نقطہ نظر کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں MMSVS کی کامیابی سے ثابت ہوتا ہے کہ برادری فطری طور پر تعلیم مخالف نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے تعلیمی ماڈل کے خلاف مزاحم ہے جو ان کی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو نظر انداز کرتا ہے۔ جب ایک مقامی مولانا نے دینی تعلیم کو بنیادی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ملانے کی وکالت کی تو برادری نے اسے قبول کر لیا 39۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ “مطالعہ میں کم دلچسپی” کوئی ناقابل تغیر ثقافتی خصوصیت نہیں ہے۔ جب تعلیمی پیشکش کو ثقافتی اور مذہبی طور پر جامع بنانے کے لیے ڈھال لیا جاتا ہے، تو برادری مثبت جواب دیتی ہے۔

 تعلیمی بااختیاری کے لیے ایک بلیو پرنٹ

اس رپورٹ کے جامع تجزیے کی بنیاد پر، میو برادری میں مطالعہ کے ذوق کو فروغ دینے اور تعلیمی حصول کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل ٹھوس سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔ یہ سفارشات پالیسی سازوں، غیر سرکاری تنظیموں اور کمیونٹی رہنماؤں کے لیے ہیں تاکہ وہ مشترکہ طور پر ان گہری جڑوں والے مسائل سے نمٹ سکیں۔

پالیسی سازوں کے لیے (ہندوستان)

ہدف شدہ ترقیاتی منصوبہ: میوات کو ایک خصوصی توجہ کے حامل علاقے کے طور پر تسلیم کیا جائے اور تعلیمی بنیادی ڈھانچے (اسکول، بیت الخلا، بجلی) میں ہدف شدہ سرمایہ کاری کی جائے، جیسا کہ متعدد رپورٹس میں روشنی ڈالی گئی ہے 17۔

ثقافتی طور پر متعلقہ نصاب: ایک ایسا نصاب تیار اور نافذ کیا جائے جو مقامی تاریخ، زبان (میواتی) اور ثقافتی تناظر کو مربوط کرے تاکہ اسکولنگ کو کم اجنبی بنایا جا سکے 29۔

ہائبرڈ تعلیمی ماڈلز کی حمایت: کامیاب این جی او ماڈلز کی پیروی کرتے ہوئے، ایسے ہائبرڈ اسکولوں کی سرکاری طور پر حمایت اور مالی معاونت کی جائے جو معیاری سیکولر تعلیم کو بنیادی مذہبی ہدایات کے ساتھ مربوط کرتے ہیں 39۔

خواتین اساتذہ کی بھرتی: حفاظتی خدشات کو دور کرنے اور لڑکیوں کے اندراج کی حوصلہ افزائی کے لیے مقامی خواتین کو اساتذہ کے طور پر بھرتی اور تربیت دینے کے لیے خصوصی مہم چلائی جائے 37۔

پالیسی سازوں کے لیے (پاکستان)

ڈیٹا کی تفریق: حکومت اور شماریاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ نسلی/ذات (جیسے میو/میواتی) کی بنیاد پر سماجی و اقتصادی اور تعلیمی ڈیٹا اکٹھا اور تجزیہ کریں تاکہ برادری کے چیلنجز کو görünür بنایا جا سکے 16۔

دیہی علاقوں پر توجہ: دیہی پنجاب اور سندھ میں عوامی تعلیمی نظام کو مضبوط کیا جائے، جس میں چار ‘A’s’ پر توجہ دی جائے: دستیابی (Availability – زیادہ اسکول)، رسائی (Accessibility – ٹرانسپورٹ)، استطاعت (Affordability – پوشیدہ اخراجات کا خاتمہ) اور قابل قبولیت (Acceptability – معیاری تدریس، لڑکیوں کے لیے محفوظ ماحول) 34۔

زبان اور ثقافت کا تحفظ: میواتی زبان کو ایک قیمتی ثقافتی اثاثہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، جہاں ممکن ہو، مقامی اسکول پروگراموں میں شامل کر کے اس کے تحفظ کی حمایت کی جائے 16۔

این جی اوز اور کمیونٹی رہنماؤں کے لیے

وکالت: پالیسی میں تبدیلی اور وسائل کی تقسیم کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مضبوط وکالت گروپ تشکیل دیے جائیں 16۔

کمیونٹی کو متحرک کرنا: تعلیم کے طویل مدتی معاشی اور سماجی فوائد، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، پر آگاہی مہم جاری رکھی جائے، جس میں مقامی مذہبی رہنماؤں کو اتحادی کے طور پر استعمال کیا جائے 39۔

مہارت کی ترقی: تعلیم کو قابل عمل معاشی مواقع سے جوڑا جائے اور اسکولنگ کی اعلیٰ موقعی لاگت سے نمٹنے کے لیے نصاب میں پیشہ ورانہ اور ہنر کی تربیت کو مربوط کیا جائے 35۔

آخر میں، میو قوم میں مطالعہ کا ذوق کم ہونا کسی ایک وجہ کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ تاریخی زخموں، معاشی مجبوریوں، ثقافتی تبدیلیوں اور ریاستی نظر اندازی کا ایک پیچیدہ جال ہے۔ اس مسئلے کا حل ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کا تقاضا کرتا ہے جو نہ صرف اسکولوں کی تعمیر کرے بلکہ اس کمیونٹی کے وقار، شناخت اور بقا کی جدوجہد کا بھی احترام کرے۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme