میو قوم کی بیٹھک(جاڑان میںپُورتاپنو)
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
ہر قوم کی اپنی ریتی رواج رہواہاں،میو قوم رسم و رواج کا لحاظ دوسری قومن سو امتیاز راکھے ہے۔
جب سیت پڑے ہو تو میو پور جلاوے ہا۔ویسے پور ساراجاڑان میں بیٹھک /حویلی/ بنگلہ۔چوپال کچھ بھی کہہ لئیو ۔
اُن کی آباد کاری کی نشانی پور ہی۔ آگ اور تازہ بھرو حقہ رہوے ہو۔
۔گھنی دور کی بات نہ ہے۔ہمارو بچپن ایسا ہی ماحول میں گزرو ہو۔
جب بڑا بوڑھا بالک چھوٹان سو کام کاج کہدیوے ہا،حقہ بھروالیوے ہا۔تمباکو،گُڑ گھر کا رہوے ہا۔
گائوں بستی میں کوئی نہ کوئی تمباکو بووے ہو۔۔تمباکوکی دیکھ بھال ہر کائی کا بس کی بات نہ ہی۔
بو نو لگانو،کھبڑ بٹنو۔پھر زمین میں کھڈا کھود کے ان کھبڑن نے دنادیوے ہا۔
کچھ ایسا راز بھی جو تمباکو بنان والان نے پتو ہو۔پان دی جاوے ہی۔
کچھ چیز گھول گھال کے تمباکو کے اوپر چھڑکاو کرے ہا۔وےجانے ہا کہ تمباکو کا ذائقہ میں کیسے تیزی پیدا
کری جاوے ؟۔
کیسے ذائقہ میں ہلکو پن راکھو جاوے ہے۔
میرو باپ (عثمان خان مرحوم المتوفی2004) جب اپنی بیٹھک(پولی) میںپور جلاوے ہو تو
دن کو لکڑی۔اینڈھن کو بند و بست کرلیوے ہو۔۔
والد محترم عثمان خان مرحوم
سانجھ کو کئی بات ہماری والدہ محترمہ(المتوفی2019) اونچی اونچی بولن لگ جاوے ہی کہ۔
خبردار جے میرا اُوپلان کے ہاتھ لگائیو۔
ہم دھیر دھیرئیں۔ٹھنڈ میں اٹھ کے گوبر تھیپا ہاں ،تم نواب بن کے میرا اوپلان میں آگ دیوئیو ہو۔
یا پانی پت کی لڑائی میں کئی بار ہمارا کلا بھی لال ہویا۔
بابا سو تو مائی کچھ کہہ نہ سکے ہی۔لیکن جا دِن پتو لگ جاتو کہ ہم میں سو کائی نے اوپلا لانا میں بابا کو ہاتھ بٹائیو ہے۔
ہائے بھی پڑھو
اریخ-میو-اور-داستان-میواتت-
پھر مائی کو جتنو بھی غصہ رہوے ہو ہمارا کلا لال کرن میں لگے ہو۔
قہر درویش برجان درویش۔کر بھی کہا سکے ہا۔کدی مکدی روس جاوے ہا۔
روٹی سو ہڑتال کرکے کہیں گلی محلہ کی نکر پے جا بیٹھے ہا۔
جب روٹی کا ٹائم پے چولہا آگے دکھائی نہ دیوے ہا تو تفتیش شروع ہوجاوے ہی کہ فلاں دکھائی نہ دے رو ہے؟۔
۔کوئی نہ کوئی بتاتو کہ مائی آج اُو روسو پڑو ہے۔۔پھر کہا ۔مائی روٹین سو فارغ ہوکے ڈھونڈن نلکے ہی
۔موقع مناسبت کے تحت۔فیصلہ کرے ہی کہ دوچار دھموڑا اور مارنا ہاں یا پھر لاڈ پیار سو بہلا پھسلانے روٹی کھان پے آمادہ کرنو ہے۔
اب بھی کچھ بڑا بوڑھا پوُر جلاواہاں لیکن ۔اب پورن پے پہلے والی رونق باقی نہ ہے۔
نئی پود نے بڑا بوڑھان کے پئے بیٹھنا کی ضرورت ای محسوس نہ ہووے ہے۔
زندگی مشینی انداز سو گزر تی جاری ہے۔
چوبیس گھنٹہ وقت نپو تلو ہے۔کائی کے پئے اپنایت یا ہمدردی کے مارے کوئی وقت نہ ہے۔
۔کچھ عرصہ بعد آن والی نسل پور کا تصور سو بھی عاری ہوجائے گی۔