میو قوم پے احسان کرو
ایک کتاب دان کرو ۔دوسری قسط
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کتابین کی لکھائی ایک مہنگو پراسس ہے،جامیں محنت اور وسائل دونوں لگاہاں۔ایک کام جب ہی پورو ہوسکے ہے۔جب ہرکوئی اپنا پنا کام کرے۔اور ذمہ داری کو احساس کرے۔مثلاََ ایک انسان کو اللہ نے لکھن کو ہنر دئیو ہے۔دوسرا کو مالی وسائل دیا ہاں۔تیسرا کو رابطہ کرن کی صلاحیت دی ہے۔چوتھو سفرمیں خوش رہوے۔یہ الگ الگ صفات ہاں، جو کم ای کائی ایک میں اکھٹی ہوسکاہاں ۔ہر کوئی اپنی طبعی صفات و رجحان کے مطابق تھوڑو سو حصہ قوم کے مارے وقف کردئے۔
کتاب لکھنو مشکل کام ہے۔واسو بڑھ کے وائے چھپوانو ہے ۔سب سو مشکل کام کتاب بیچنوہے ۔
اللہ اللہ کرکے کتاب لکھ کے چھپوالی جائے۔جب تک خریدار نہ ملنگا۔
یائے بھی پڑھو۔۔میواتی کھانا
کتاب چھپوانا کو کہا فائدہ؟۔سب سو بڑی مشکل ای ہے کہ میواتی زبان میں لکھی ہوئی کتاب صرف میون کے مارے کار آمد ہے۔دوسرا لوگ یاسو فائدہ نہ اٹھاسکاہاں۔کتاب سمجھ میں آئے گی تو فائدہ اٹھائیو جاسکے گو؟۔
اب تو میواتی زبان کو ای حال ہے کہ میون نے پڑھنی نہ آوے ہے۔میو قوم کا لوگ ،انگریزی۔اردو،فارسی،عربی اور دوسری زبانن میںکتاب پڑھ کے سمجھ سکاہاں ۔لیکن میواتی زبان میں سمجھنو میون کے مارے مشکل ہے۔
ای تجربہ ہم نے کرو ہے۔میو پڑھا لوگن سو جب میواتی عبارت پڑھن کو دی تو وے ٹھیک طریقہ سو نہ پڑھ سکا۔
اصل بات مہین آواں کہ
میواتی زبان میں لکھی ہوئی کتاب اور ادب کیسے آگے بڑھ سکے ہے؟۔
یاکو ایک بہترین طریقہ میرا ذہن مین ای آوے ہے کہ۔دس ،بیس لوگ اکھٹا ہوجاواں۔ہزار پانچ سو روپیہ مہینہ یا کتاب کی چھپائی کا موقع پے خرچ کراں۔
جب کتاب چھپ کے آئے تو ان لوگن کو ان کا خرچہ کے مطابق کتاب کی کاپی دیدی جاواہاں(یعنی ہزار روپیہ دیا۔ہزار کی جتنی کتاب آواں واکو دیدی جاواہاں)یاکتاب میں حصہ دارن کا نام اور تعارف بھی چھاپاجاواں۔
جاسو اِن کو تعارف بھی دوسران تک پہنچے۔انسانی نفسیات ہے جب کائی کو نام کہیں لکھو یا بولو جاوے ہے تو واکا حوالہ بار بار دیا جاواہاں۔
ایک ہزار میں اگر کتاب کی پانچ کاپی مل ری ہاں تو پانچ آدمین تک واکو تعارف پہنچ جائے گو۔ ۔
یا طریقہ سو کتاب کو خرچہ بھی نکل آئے گو۔لوگن کو تعارف بھی ہوئے گو۔اور میواتی ادب کی خدمت بھی ہوجائے گی۔
ہزار دوہزار کی کوئی قیمت نہ ہے ۔موٹر سائیکل میں اتنا کو تو روزانہ تیل پھونک دیواہاں۔
ای ایک ایسی ممکنہ صورت ہے کہ میواتی ادب کو بہت سو کام ہوسکے ہے۔
ہماری نفسیات ای ہوچکی ہے کہ دوسران کا کامن پے قبضہ کراہاں ۔
خود کام کرن سو جی چراواہاں۔اگر کوئی کام کرے تو ٹانگ کھینچا ہاں۔
اگر کوئی کام کرلیوے ہے۔دھنیڑی لوگ کی بات دیکھے ہے۔
کہ کوئی امیر آدمی واکی مدد کرے جاسو آگے بڑھ سکے۔
لیکن امیر آدمین کے مارے دوسرا بہت سا کام ہاں۔
بھائی ای دنیا ہے ۔مجمع اکھٹا کرن سو پہلے ڈگ ڈگی اکیلا ای اے بجانی پڑے ہے۔
جب مجمع اکھٹو ہوجائے تو سب ڈگ ڈگی والا کی تعریف کراہاں۔
ایک محنتی اور مخلص انسان محنت کرے کہ اپنو تجربہ اور خدمات کی سند پیش کرے؟۔
البتہ کام کرن والان کے مارے بہترین راستہ ہے کہ باہمی تعاون سو کچھ اونٹ مٹیلو کرے
لوگن کی توجہ اپنا مہیں کھینچی جاواں۔
ایک بار تعارف ہوگئیو اور پیاں گھوم گئیو پھر سواری کے مارے بہتیرا لوگ مل جانگا۔
دریا کتنو بھی بڑو ہوئے۔پہلے ایک قطرہ سو شروع ہووے ہے۔
میں نے بہت سا لوگ گلہ شکوہ کرتا دیکھا کہ اگر ہماری مدد کری جائے تو ہم بہت کچھ کرسکاہاں؟
ای اتنی فضول بات ہے۔جاکی جتنی مذمت کری جائے کم ہے۔
محنت کرن والان کے مارے کوئی چیز مشکل نہ رہوے ہے۔
البتہ پروگرامنگ اور تسلسل یکسوئی درکا ررہوے ہے۔
کچھ لوگ یابات سو بددل ہوکے کام چھوڑ دواہاں کہ لوگ واکی کھلی اُڑا واہاں۔مذاق کراہاں۔
کدی تم نے ای بات سوچی ہے کہ تنقید، مذاق۔یا کھلی واکی اڑائی جاوے ہے
جامیں دو دانہ ہوواں۔اگر کوئی مذاق کرے۔غیبت کرے۔یا ٹانگ کھنچائی کرے۔
سمجھ لینو چاہےاُو زندہ ہے۔واکی حیثیت ہے واکو معاشرتی مقام ہے۔
عام غیر معروف یا نمکا انسان کو کون مخالفت کرے گو۔
کون مذاق یا چغلی کرے گو؟۔۔
جب یہ بات دیکھن کو ملاں تو سمجھ لئیو تم زندہ ہو۔
لوگ نے دیکھا سنا ہاں؟معاشرہ میں تہاری حیثیت ہے۔تہارو معاشرہ میں مقام ہے۔