
قومی ثقافتی نمائش7تا17 نومبر۔لوک ورثہ اسلام آباد
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میو فنکارن کی پاکستان کی قومی ثقافتی نمائش میں انٹری۔
میو قوم کے بارہ میں بہت کچھ لکھو جارو ہے۔اور مختلف طبقات اور تنظیمن کا مہین سو جو قومی خدمات سر انجام دی جاری ہاں۔خوش آئیند ہاں۔اسلام آباد میں بسن والا میوون نے کچھ اقدامات ایسا کراہاں بلاشبہ ان کا فوائد پوری میو قوم تک پہنچاہاں،جیسے

(1)میو قوم کو نادارا میں اندراج۔
(2)میو قوم کو شماریات میں اندراج۔
(3)قومی ثقافتی قافلہ میں شمولیت او ر میو لائبریری کی جگہ کو تعین۔
(4)اسلام آباد لوک ورثہ میں جاری فنارن کی لسٹ میں میو فنکارن کی شمولیت۔
سوشل میڈیا میں یاکی بھرپور تشہیر کری گئی۔ایک نمائش دس تک جاری رہی گی،یعنی 7 نومبر سو لیکے 17 نومبر 2025 تک،
پاکستان کی تاریخ میں قومی سطح کو پے پہلی بار میو فنکارن کی شمولیت خوش آئیند ہے۔
یالوک میلہ میں میرو بھی جانو ہوئیو۔رائو غلام محمد،حاجی محمد اسحق میو، اسلام آباد والان نے میں بھی بلائیو۔ہو۔ای پروگرام بہترین اور اپنی نوعیت کو کامیاب پروگرام ہو۔
ایک تاریخی نوعیت کو پہلو پروگرام ہو۔بطور فنکار ریاض نور اور حاجی صدیق مدعو کراگیا ہا۔ان دونون نے میو قوم کی ثقاتی نمائندگی کری۔دونوں فنکارن نے اپنا فن میں یا پختگی اور جوش و جذبہ کو اظہار کرو۔ میو قوم کو لہو گرمادئیو۔ ریاض نور پہلو فنکار ہو جانے پاکستان کی دھرتی پے سب سو پہلے میو ہے تو میو ہے یا دھرتی کو دئیو ۔۔گائیو۔یعنی ریاض کو نام تاریخ میں پہلا فنکار کے طورپے لکھو جائے گو کہ واکا بولن نے سب سو پہلے میو قوم کی نمائیندگی کری۔اٹھر سالن سو پاکستان کی دھرتی پے قربانی دیکے آن والی قوم کا فنکارن نے جا جوش و جذبہ سو میو قوم کی

نمائیندگی کری قابل تعریف ہے۔
دوسرو فنکار حاجی صدیق اور ان کا ہمنوا ہا۔
انن نے بھی روایتی انداز میں میو کلچرل ماحول باندھو۔سچی بات ای ہے کہ ان دونوں نے فنکارن نے دل لگاکے اپنی ذمہ دراری نبھائی۔دو ڈھائی گھنٹہ کو پروگرام شاندار انداز سو چلتو رہو۔
حاضی صدیق اور بھائی رشید احمد نے جو سماں باندھو،وائے دیکھ کے بچپن میں جو فنکار بیٹھک بنگلان میں گاوے ہا۔اور میو قوم کا بزرگن کے مارے سامان تفریح پیش کرے ہا۔اور بڑا اور پُرکھن کی تعریفن نے کرے ہا۔رات۔رات بھر بات سنے کا ۔ایک دم وہی ماحول ذہن میں تازہ ہوگئیو۔۔
ریاض نور اکیلو ہو جانے اپنا فن کو مظاہرہ کرو۔۔جب کہ حاجی صدیق اپنی پوری تیاری اور آٹھ افراد کی ٹولی کے ساتھ آئیو۔ اور ایک اجتماعی ماحول پیش کرو۔
ان دونوں فریقین کا بارہ میں اگر ہم سو کوئی پوچھے کہ کہا محسوس کرو۔۔؟
بلاجھجک بتائوں گو کہ حاجی صدیق اور واکا ہمنوا کلاسکل موسیقی۔صدین سو چلا آن والا میواتی کلچر کو نمائیدنہ ہو۔
جبکہ ریاض نور ۔نوجوان میو اور جدید نسل اور نئی پود کو نمائیندہ ہو۔۔حاجی صدیق و ہمنوا میں ایک ٹھرائو۔رکھارکھائو۔ایک سلیقہ مندی۔روایتی فنکارانہ توضع اور آداب موسیقی نمایاں دکھائی دیا۔

جب کہ ریاض نور میو میں جدید دھن ۔میو کلام آن والی نسلن کی زبان اور ان کا پسندیدہ انداز میں پیش کرو۔
ای تجزیہ بطور تجزیہ نہ ہے بلکہ اوُو مشاہدہ ہے جو ہون موجود رہ کے میں نے کرو۔۔۔۔علامہ اقبال کہوے ہو
خِرد کو غلامی سو آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔اقبال
میں دیکھو ریاض نور نے جب جب اپنا فن کو مظاہرہ کرو تو میو پنجابی ۔اور دوسری قومن کا چھورا

چھوریٹ۔ناچن لگا بھنگڑا گیرا۔خود دھمال پائی۔
جب کی حاجی صدیق و ہمنوا نے جب دھن بھیکری تو روایتی انداز مین برا بوڑھا نے اپنی گُلک کھولی اور ہزار ۔ہزار پانچ پانچ پزار کا نوٹ فنکارن کو بھینٹ میں دیا۔
میری زندگی کو ایک دلچسپ مرھلہ ہو کہ میو قوم کا دو نمائیندہن نے جب اپنو اپنو فن پیش کرو تو

یاکا اثرات عمر اور سوچ کا اعتبار سو الگ الگ پڑا۔۔۔
یا تجربہ نے میرے مارے میو قوم کی تاریخ میں پیدا ہون والا کئی الجھا ہویا سوالن کا جواب دیا۔۔۔
میں یا وقت میو قوم کی تاریخ لکھ رو ہوں ۔تاریخی اعتبار سو کئی دَبی ہوئی الکجھن والی بات صاف ہوگئی۔
یا میلہ میں ایک رائو عمران صاحب وکیل بھی سچی بات ایک ہے یانے جا انداز سو محفل انجوائے کری شاید ہی کائی نے کری ہوئے
باقی کال لکھونگو۔۔۔۔۔
