تقسیمِ ہند 1947 کے دوران میو برادری پر ہونے والے مظالم کی تاریخ

0 comment 26 views

تقسیمِ ہند 1947 کے دوران میو برادری پر ہونے والے مظالم کی تاریخ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

تعارف: دو دنیاؤں کے درمیان ایک قوم

Advertisements

یہ رپورٹ میو برادری کے اس المیے کا احاطہ کرتی ہے جو ایک منفرد، راجپوت-مسلم مخلوط شناخت کی حامل قوم تھی، جسے تقسیمِ ہند کی سخت اور دو ٹوک منطق میں پرتشدد طریقے سے دھکیل دیا گیا۔ ان کی تاریخی خودمختاری اور پیچیدہ ثقافت نے انہیں ایک ایسی غیر معمولی حیثیت دی جسے نئی، مذہبی طور پر متعین قومیتیں برداشت نہ کر سکیں۔ اس رپورٹ کا مرکزی استدلال یہ ہے کہ الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں میں میوؤں کے خلاف ہونے والے واقعات محض “فسادات” نہیں تھے، بلکہ یہ “صفایا” کی ایک دانستہ اور ریاستی سرپرستی میں چلائی جانے والی مہم تھی، جس کا مقصد نسلی صفائی تھا، جیسا کہ مورخین اور زندہ بچ جانے والوں کی دستاویزات سے ثابت ہے 1۔

یہ رپورٹ میو شناخت کے قیام سے شروع ہو کر اس سیاسی ماحول کا تجزیہ کرے گی جس نے اس تشدد کو ممکن بنایا۔ اس کے بعد “صفایا” مہم کی ساخت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا، اہم کرداروں کا محاسبہ کیا جائے گا، اور آخر میں جبری نقل مکانی اور صدمے کے طویل مدتی نتائج کا سراغ لگایا جائے گا۔


حصہ اول: تقسیم کے دہانے پر میو شناخت

ایک مخلوط ورثہ: راجپوت نسب اور اسلامی عقیدہ

تقسیم سے قبل میو برادری کی شناخت ایک گہرے امتزاج کا نمونہ تھی۔ ان کا شجرہ نسب نامور راجپوت قبیلوں (ونسوں) جیسے تومر، جادون، چوہان، راٹھور اور پنوار سے جا ملتا تھا 3۔ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے کیونکہ یہ اس سرزمین میں ان کی اسلام سے پہلے کی گہری جڑوں کو ثابت کرتا ہے، جس کی وجہ سے “پاکستان جاؤ” کا نعرہ خاص طور پر ظالمانہ محسوس ہوتا ہے۔ ان کا اسلام قبول کرنے کا عمل نویں یا دسویں صدی میں شروع ہوا، جس نے انہیں برصغیر کی ان ابتدائی برادریوں میں سے ایک بنا دیا جنہوں نے اسلام قبول کیا 5۔

مسلمان ہونے کے باوجود، انہوں نے اپنی بہت سی قبل از اسلام روایات، رسوم و رواج اور سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھا جو ان کے ہندو راجپوت ہم منصبوں سے ملتا جلتا تھا 4۔ صدیوں تک، ‘رام خان’ اور ‘کرشن خان’ جیسے نام عام تھے، جو ایک ایسی سیال شناخت کو ظاہر کرتے تھے جو اپنے ورثے اور عقیدے میں کوئی تضاد نہیں دیکھتی تھی 6۔ ان کی زبان، میواتی — جو راجستھانی، ہریانوی اور اردو کا مرکب ہے — نے ان کی مخصوص علاقائی شناخت کو مزید مستحکم کیا 3۔ قاری محمد یونس شاہد میو جیسے علماء کا قرآن مجید کا میواتی زبان میں ترجمہ کرنا ان کے عقیدے کو ان کے مخصوص ثقافتی تناظر سے ہم آہنگ کرنے کی ایک جدید کوشش کو ظاہر کرتا ہے 4۔

اس منفرد، سیال شناخت نے، جو ایک تکثیری معاشرے میں ایک پل کا کام کر سکتی تھی، تقسیم کے دوران ایک نازک کمزوری کی شکل اختیار کر لی۔ ایک ایسے ماحول میں جو مطلق مذہبی درجہ بندی کا مطالبہ کر رہا تھا، ان کے ثقافتی امتزاج کو ایک ایسی ناپاکی کے طور پر دیکھا گیا جسے “صاف” کرنا ضروری تھا۔ وہ دو قومی نظریے کے دوہرے معیار میں ٹھیک سے فٹ نہیں ہوتے تھے، جس کی وجہ سے وہ ایک طرف کے انتہا پسندوں کا ہدف بنے جبکہ دوسری طرف ان کا کوئی فطری اور طاقتور حمایتی حلقہ موجود نہیں تھا۔

میوات کی سرزمین: مزاحمت کی ایک میراث

میوات وہ تاریخی وطن تھا جہاں میو آباد تھے، یہ خطہ موجودہ ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے علاقوں پر پھیلا ہوا تھا 6۔ تاریخی طور پر، وہ اس علاقے میں غالب زمیندار اور جاگیردار تھے 3۔

تاریخ میو چھتری جیسی تاریخی کتابوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میوؤں کی بیرونی طاقتوں، بشمول مغل اور سلطنت کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے 5۔ یہ جنگی میراث ان کی شناخت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ انہوں نے صدیوں تک اپنی زمین اور خودمختاری کے لیے جنگ لڑی 5۔

یہ مزاحمتی تاریخ المناک طور پر متضاد ہے، کیونکہ یہ اکثر ان کے ہندو پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مسلمان شہنشاہوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس کے باوجود، 1947 میں، اس مشترکہ تاریخ کو مٹا دیا گیا اور انہیں صرف “مسلمان” ہونے کی بنا پر نشانہ بنایا گیا 7۔ یہ حقیقت کہ انہوں نے ماضی میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کی تھی، اسے نظر انداز کر دیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر “مسلمان” کا لیبل لگانا ان کے خاتمے کا ایک بہانہ تھا، نہ کہ ان کی سیاسی وفاداری کا عکاس۔


حصہ دوم: 1947 کا سیاسی بحران

‘میوستان’ کا مطالبہ: خواہش یا بہانہ؟

ایک بیانیہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تنازع کی بنیادی وجہ ایک خودمختار “میوستان” کا مطالبہ تھا۔ یہ مطالبہ، جو مبینہ طور پر کنور محمد اشرف جیسے رہنماؤں اور مسلم لیگ کے کچھ حصوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، دہلی سے دوسہ تک پھیلی ہوئی ایک ریاست کا تصور پیش کرتا تھا 8۔ اس بیانیے کی حمایت میں اشتعال انگیز تقاریر،

ترانہ میوات (میوات کا ترانہ) کی تخلیق، اور میوؤں کے مسلح اجتماعات کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے 8۔ یہ نقطہ نظر میوؤں کو حملہ آور کے طور پر پیش کرتا ہے جنہوں نے الور کے مہاراجہ کو پاکستان میں شامل ہونے پر مجبور کرنے کے لیے ہندوؤں اور ریاست کے خلاف تشدد کا آغاز کیا 8۔

تاہم، اس بیانیے کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ 3 جون 1947 کے ماؤنٹ بیٹن پلان نے، جس نے پنجاب کی تقسیم کی تصدیق کی، ایک متصل میوستان کو جغرافیائی اور سیاسی طور پر ناممکن بنا دیا تھا 8۔ میوؤں کے خلاف تشدد کا عروج اگست 1947 میں آیا، یعنی “میوستان” کے خیال کے بے معنی ہو جانے کے کافی بعد 1۔ یہ وقت کا فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ “میوستان” کا مطالبہ، چاہے وہ چند لوگوں کی حقیقی خواہش ہو یا مکمل من گھڑت کہانی، اسے ایک پہلے سے منصوبہ بند خاتمے کی مہم کے لیے بعد ازاں جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ میو جارحیت کا بیانیہ اس ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کے لیے ایک آسان بہانہ بن گیا۔

شاہی ریاستیں اور ہندو قوم پرستی کا عروج

شاہی ریاستوں کا سیاسی ماحول منفرد تھا، کیونکہ وہ براہ راست برطانوی حکومت کے تحت نہیں تھیں 1۔ الور اور بھرت پور کے حکمران ہندو مہاسبھا کے فعال رکن تھے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور آریہ سماج جیسی تنظیموں کی سرپرستی کرتے تھے 1۔ شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد کے لیے منظم، ریاستی سطح پر تیاریاں کی گئی تھیں۔ ان میں بھرت پور میں ملیشیا کو سپلائی کرنے کے لیے خفیہ طور پر اسلحہ ساز فیکٹریوں کا قیام 1 اور الور میں سامنت انفنٹری نامی ایک نیم فوجی دستے کی تشکیل شامل تھی، جو کھلے عام مسلمانوں کو ہراساں کرتی تھی 12۔

الور میں ماحول ایسا تھا جہاں مہاراجہ کو تمام رعایا کا حکمران نہیں، بلکہ “ہندو مفادات کا محافظ” سمجھا جاتا تھا، اور مسلمانوں کو قتل عام شروع ہونے سے پہلے ہی دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا تھا 12۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد اچانک نہیں تھا بلکہ ایک ریاستی سرپرستی میں چلنے والے نظریے میں جڑا ہوا تھا۔ شاہی ریاستوں میں تشدد کا معیار برطانوی زیر انتظام پنجاب سے یکسر مختلف تھا۔ پنجاب میں، تشدد اس وقت بڑھا جب ریاست کا اختیار ختم ہو گیا 13۔ میوات میں، تشدد خود ریاست نے کیا۔ مہاراجاؤں کی مطلق العنان طاقت نے، آخری دنوں میں برطانوی نگرانی کے بغیر، انہیں اپنی فوجوں اور وسائل کو ایک منظم نسلی صفائی کی مہم چلانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ یہ میوؤں پر ظلم و ستم ریاست کی ناکامی نہیں تھی، بلکہ اس کی ایک خصوصیت تھی۔


حصہ سوم: ‘صفایا’: ایک نسلی صفائی کی مہم کا تجزیہ

ریاستی سرپرستی میں تشدد: فوجوں اور ملیشیا کا کردار

تشدد کی منظم نوعیت کی ایک سرد مہری سے بھری تفصیل موجود ہے۔ اس مہم کو واضح طور پر “صفایا” (صفائی) کہا گیا اور یہ ریاستی پالیسی کا حصہ تھی 2۔ مورخہ شیل مایارام کی طرف سے ریکارڈ کی گئی ملوث فوجی افسران کی گواہیوں کا حوالہ دیا جائے گا۔ ایک افسر نے بتایا کہ الور کو چار فوجی سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کا واضح مقصد “ریاست کو مسلمانوں سے پاک کرنا” تھا 1۔ یہ تشدد افواج کے ایک اتحاد نے کیا: الور اور بھرت پور کی سرکاری ریاستی فوجیں، ریاستی سرپرستی میں چلنے والی ہندو ملیشیا (جو 10,000 سے 20,000 تک مضبوط تھیں)، اور “دھاڑ” کے نام سے مشہور کثیر ذاتوں پر مشتمل ہجوم 1۔ یہ ایک مربوط کوشش تھی، نہ کہ کوئی افراتفری پر مبنی فساد۔

ظلم و ستم کے طریقے: قتل عام، جبری تبدیلی مذہب، اور بے دخلی

قتل عام: رپورٹ میں مخصوص قتل عام کی تفصیلات دی گئی ہیں، جیسے تجارہ کی لڑائی جہاں ریاستی فوجوں نے ایک میو فوج کو شکست دی اور “ہر آدمی کو مار ڈالا” 1، اور کالا پہاڑ پر آخری قتل عام، جہاں میوؤں نے حفاظت کے لیے پناہ لی تھی لیکن پولیس اور فوج کے سہ طرفہ حملے میں گھر گئے 1۔

جبری تبدیلی مذہب (‘شدھی’): جبری تبدیلی مذہب کے منظم عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ مسلح دستے میو دیہاتوں کو ایک انتخاب دیتے تھے: “یا تو مارے جاؤ یا سفید جھنڈا دکھا کر ہندو بن جاؤ” 1۔ ‘شدھی’ (پاکیزگی) کی رسومات آریہ سماج کے دستوں کے ذریعے کی جاتی تھیں اور ان میں سر منڈوانا، سور کا گوشت کھانے پر مجبور کرنا، ہندو منتر پڑھوانا، اور قرآن کو جلانا شامل تھا 1۔ یہ ثقافتی اور روحانی فنا کا ایک گہرا عمل تھا۔

صنفی تشدد: میو خواتین کے ساتھ وسیع پیمانے پر اغوا اور عصمت دری کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ ان کے خاندانوں کو قتل کرنے کے بعد خواتین کو سڑکوں پر برہنہ پریڈ کرایا گیا 2۔ “شادی کی عمر” کی خواتین کو “لے جایا” گیا اور گنگا جل سے “پاک” کرنے کے بعد مجرموں میں تقسیم کر دیا گیا 2۔

تباہی اور بے دخلی: پورے میو دیہاتوں کو مسمار کر دیا گیا 2۔ مساجد کو منظم طریقے سے منہدم کیا گیا، بعض اوقات پولیس جیپوں اور مزدوروں کی مدد سے 12۔ “صفائی” کے بعد، خالی کی گئی میو زمینوں کو نیلام کر کے مغربی پاکستان سے آنے والے ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو الاٹ کر دیا گیا 1۔

استعمال کیے گئے طریقے محض “تشدد” سے بالاتر ہیں اور نسل کشی کے ارادے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مردوں کا قتل عام، خواتین کی منظم عصمت دری اور اغوا (برادری کی تولیدی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے)، جبری تبدیلی مذہب (ثقافتی اور مذہبی شناخت کو مٹانے کے لیے)، اور زمین پر قبضہ (ان کے وطن میں ان کے مادی وجود کو ختم کرنے کے لیے) کا مجموعہ نسل کشی کے فریم ورک سے مطابقت رکھتا ہے۔ خود “صفایا” کی اصطلاح کا مطلب زمین کو میو وجود سے “صاف” یا “پاک” کرنے کی خواہش ہے۔

تباہی کا تخمینہ: انسانی قیمت

اس سانحے کے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں، اگرچہ درست اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے۔ متعدد ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو یکجا کر کے ایک واضح تصویر پیش کی گئی ہے۔

جدول 1: میو برادری کی ہلاکتوں اور نقل مکانی کا تخمینہ (1947)

زمرہمقام/دائرہ کارتخمینہ شدہ تعدادماخذ 2نوٹس
امواتریاست بھرت پور30,0002اسے ایک “سرکاری اعداد و شمار” کہا جاتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
امواتریاست الوردستیاب نہیں2ذرائع واضح طور پر کہتے ہیں کہ کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، جو پردہ پوشی یا افراتفری کی نشاندہی کرتا ہے۔
امواتالور اور بھرت پور (کل)~50,0001مورخ آئن کوپلینڈ کا تخمینہ۔
امواتالور اور بھرت پور (کل)~82,0002شیل مایارام کا حوالہ دیا گیا تخمینہ، جس میں ممکنہ طور پر متعلقہ تشدد بھی شامل ہے۔
نقل مکانیپاکستان کی طرف ہجرت~50 لاکھ23میو برادری کے ایک ذریعے سے یہ تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ معلوم ہوتی ہے اور ممکنہ طور پر وقت کے ساتھ وسیع تر میو آبادی یا ان کی اولادوں کا حوالہ دیتی ہے۔ اسے اس انتباہ کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔
نقل مکانیہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف فرارنامعلوم8بہت سے لوگ گڑگاؤں، متھرا، دہلی وغیرہ فرار ہو گئے۔
کل آبادیالور اور بھرت پور (تقسیم سے قبل)~200,0002یہ قتل و غارت اور نقل مکانی کے پیمانے کے لیے سیاق و سباق فراہم کرتا ہے۔

حصہ چہارم: مداخلت، مزاحمت، اور نتائج

گاندھیائی مداخلت: گھاسیڑا کا وعدہ

یہ حصہ 19 دسمبر 1947 کو مہاتما گاندھی کے گاؤں گھاسیڑا کے اہم دورے کی تفصیلات بیان کرتا ہے 2۔ اس وقت، الور اور بھرت پور سے آئے ہوئے میو پناہ گزین وہاں پاکستان جانے کے لیے جمع تھے۔ گاندھی نے میوؤں سے وعدہ کیا کہ وہ ہندوستان کے شہری ہیں اور انہیں مکمل تحفظ اور مساوی حقوق دیے جائیں گے 6۔ انہوں نے کامیابی سے ایک بڑی تعداد کو رکنے پر آمادہ کیا۔ اس واقعے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسے ہر سال “یوم میوات” کے طور پر منایا جاتا ہے 6 اور گھاسیڑا غیر سرکاری طور پر گاندھی گرام گھاسیڑا کے نام سے جانا جاتا ہے 2۔ یہ مداخلت ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد کے خلاف ایک اہم جوابی بیانیہ پیش کرتی ہے، جو انتہائی فرقہ واریت کے لمحے میں ہندوستان کے سیکولر وعدے کا اثبات ہے۔

مقامی مزاحمت اور قومی سیاست: ہمتّا میو اور سردار پٹیل

رپورٹ میں ہمتّا میو کی طاقتور کہانی بیان کی گئی ہے، جو ایک ان پڑھ لیکن بہادر میو رہنما تھے۔ جب پڑھے لکھے میوؤں کے ایک وفد کو وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے “پاکستان جاؤ” کہا تو وہ خاموش ہو گئے، لیکن ہمتّا میو نے دلیری سے پٹیل کا سامنا کیا، انہیں زمین کے لیے میوؤں کی لڑائی کی تاریخ یاد دلائی اور جانے سے انکار کر دیا 6۔ کہا جاتا ہے کہ اس جرات مندانہ عمل نے پٹیل کو متاثر کیا اور میوات میں فوجی گارڈ کی تبدیلی کا باعث بنا، جس سے کچھ امن قائم ہوا 6۔

اس کے بعد یہ حصہ پٹیل کے کردار کے ایک پیچیدہ تجزیے کی طرف مڑتا ہے۔ یہ الور کے ایک فوجی کپتان کے اس سنگین الزام کو پیش کرتا ہے کہ “مسلمانوں سے ریاست کو صاف کرنے” کے احکامات براہ راست سردار پٹیل کی طرف سے مہاراجہ کو ایک ہاٹ لائن پر آئے تھے 2۔ اس کا موازنہ ہندوستان کے اتحاد میں ان کے کردار اور ہمتّا میو کی مداخلت کے بعد میوات میں امن بحال کرنے کے لیے ان کے حتمی اقدام سے کیا جائے گا۔ اس تجزیے میں آئن کوپلینڈ کی تحقیق کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو پٹیل کی طرف سے ایک حسابی سیاسی اقدام کی تجویز دیتی ہے: انہوں نے قومی کابینہ کو الور مہاراجہ کے آر ایس ایس سے روابط پر توجہ مرکوز کرنے پر آمادہ کیا (جو مرکزی حکومت کی طاقت کے لیے ایک خطرہ تھا) جبکہ مسلمانوں کی نسل کشی میں ریاست کی شمولیت کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا 1۔

میوات کے واقعات نوزائیدہ ہندوستانی ریاست میں ایک گہری دوئی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک طرف، شاہی ریاستوں کی نسل کشی میں شمولیت اور پٹیل جیسی شخصیات کی مبہم، ممکنہ طور پر بے رحم حقیقت پسندی تھی۔ دوسری طرف، مہاتما گاندھی کی طاقتور اخلاقی مداخلت تھی، جو ایک سیکولر، جامع وژن پر زور دے رہی تھی۔ میو برادری ان دو مخالف قوتوں کے درمیان پھنس گئی تھی۔ ان کی حتمی قسمت — جزوی طور پر فنا اور بے دخل، جزوی طور پر محفوظ اور برقرار — نئی ہندوستانی قیادت کے اندر اس داخلی تنازع کا براہ راست نتیجہ ہے۔


حصہ پنجم: تقسیم کا طویل سایہ: ہجرت اور میراث

ہجرت کا کرب: پاکستان کا سفر

یہ حصہ ان میوؤں کے ہولناک تجربے کو دوبارہ بیان کرتا ہے جنہیں فرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ تقسیم کی ہجرت کے عمومی بیانات پر مبنی ہے، جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی، جس میں بے پناہ تشدد، صدمے اور افراتفری تھی 11۔ پیدل، بیل گاڑیوں اور خطرناک حد تک بھری ہوئی پناہ گزین ٹرینوں پر سفر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں 15۔ عینی شاہدین سڑکوں کے کنارے لاشوں کے ڈھیر اور غلیظ پناہ گزین کیمپوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کو یاد کرتے ہیں 17۔ علی شان جیسی ذاتی کہانیاں، جو یتیم ہو گئے اور آٹھ سال کی عمر میں اکیلے پناہ گزین کیمپوں میں رہے، نقل مکانی کے شدید نفسیاتی صدمے کو انسانی شکل دیتی ہیں 11۔

ایک منقسم برادری: آبادکاری، بے دخلی، اور شناخت

پاکستان میں: رپورٹ میں میو پناہ گزینوں کی پاکستان میں آبادکاری کی تفصیلات دی گئی ہیں، بنیادی طور پر لاہور، قصور، سیالکوٹ، شیخوپورہ، اور نارووال کے اضلاع میں، اور کراچی میں بھی 3۔ وہ پناہ گزینوں کے ایک بڑے سیلاب کا حصہ تھے جس نے نئے ملک کے وسائل پر بہت دباؤ ڈالا 17۔

ہندوستان میں: جو میو رہ گئے یا واپس آئے، ان کے لیے جدوجہد ختم نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے پایا کہ ان کی آبائی زمینیں اور دیہات ضبط کر کے ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو الاٹ کر دیے گئے ہیں 1۔ حکومت کی پالیسی اکثر انہیں ان کی اصل جائیدادوں پر بحال کرنے کی نہیں تھی بلکہ انہیں کہیں اور آباد کرنے کی تھی، جس سے ان کی بے دخلی مستحکم ہو گئی 1۔

“صفایا” نے صرف قتل و غارت اور نقل مکانی ہی نہیں کی، بلکہ اس نے برادری کی نفسیات اور سماجی و اقتصادی حیثیت پر ایک مستقل زخم بھی لگایا۔ آبائی زمین کا نقصان صرف ایک اقتصادی نقصان نہیں ہے؛ یہ شناخت، تاریخ اور حیثیت کا نقصان ہے۔ جو میو پاکستان گئے، وہ مہاجر بن گئے۔ جو رہ گئے، وہ اپنے ہی وطن میں ایک بے دخل اور مشکوک اقلیت بن گئے۔ اس طرح تقسیم نے ایک ہی برادری کے لیے صدمے اور پسماندگی کی دو الگ الگ لیکن متعلقہ شکلیں پیدا کیں۔ 1947 کا امتیازی سلوک کوئی ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی بے اختیاری کے ایک مسلسل عمل کا نقطہ آغاز تھا جس نے 75 سال سے زائد عرصے سے سرحد کے دونوں طرف میو تجربے کی تعریف کی ہے۔


نتیجہ: تقسیم کے بیانیے کا از سر نو جائزہ

اس رپورٹ کے بنیادی دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ میوؤں پر ظلم و ستم پنجاب کے فسادات کا کوئی ضمنی نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک الگ، ریاستی سرپرستی میں چلائی جانے والی نسلی صفائی کی مہم تھی۔ یہ تشدد الور اور بھرت پور کی شاہی ریاستوں کی مطلق العنان طاقت اور ان کے حکمرانوں کے ہندو قوم پرست نظریات سے ممکن ہوا۔ میوؤں کی منفرد مخلوط شناخت نے انہیں ایک ہدف بنایا، اور “میوستان” کا مطالبہ ان کے خاتمے کا ایک بہانہ تھا۔

شاہی ریاستوں میں تشدد اور برطانوی پنجاب میں تشدد کے درمیان اہم فرق پر زور دینا ضروری ہے۔ میوات میں، ریاست بنیادی مجرم تھی؛ پنجاب میں، ریاست بڑی حد تک منہدم ہو چکی تھی۔ یہ تقسیم کی بدترین زیادتیوں کو آسان بنانے میں ریاستی شمولیت کے اہم کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

اس ٹارگٹڈ امتیازی سلوک کا دیرپا اثر ایک بکھری ہوئی برادری کی صورت میں نکلا، جو صدمے، بے دخلی، اور سلامتی و شناخت کے لیے مسلسل جدوجہد سے دوچار ہے۔ میوؤں کی کہانی تقسیم کا ایک اہم اور ہولناک باب ہے جو سادہ بیانیوں کو چیلنج کرتا ہے اور شاہی ریاستوں، قومی رہنماؤں، اور اس تشدد کی نوعیت کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کرتا ہے جس نے دو قوموں کو جنم دیا۔ یہ اس بات کی ایک طاقتور یاد دہانی ہے کہ جب سیال، تاریخی شناختوں کو سخت، نظریاتی خانوں میں زبردستی ڈالا جاتا ہے تو اس کے کیا تباہ کن نتائج نکلتے ہیں۔

Works cited

In the shadow of Partition, state-sanctioned atrocities aimed to wipe out Meo Muslims in Mewat – Scroll.in, accessed August 8, 2025, https://scroll.in/article/1059050/in-the-shadow-of-partition-state-sanctioned-atrocities-aimed-to-wipe-out-meo-muslims-in-mewat

Muslims of Mewat: An untold history of Blood & Betrayal – foej.in, accessed August 8, 2025, https://foej.in/muslims-of-mewat-an-untold-history-of-blood-betrayal/

زمرہ:میو راجپوت – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 8, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B2%D9%85%D8%B1%DB%81:%D9%85%DB%8C%D9%88_%D8%B1%D8%A7%D8%AC%D9%BE%D9%88%D8%AA

میو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed August 8, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88

حکیم عبدالشکور کی کتاب تاریخ میوچھتری | ریختہ – Rekhta, accessed August 8, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/tareekh-e-miyo-chhatri-hakeem-abdush-shakoor-ebooks?lang=ur

ہمّتا میو ، جنہوں نے میوات کے مسلمانوں کو پاکستان جانے سے بچایا, accessed August 8, 2025, https://www.qaumiawaz.com/social/himmata-meo-and-its-works-about-mewati-muslims-at-the-time-of-partition

تقسیم ہند اور میوات – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed August 8, 2025, https://www.express.pk/story/826072/tqsym-hnd-awr-mywat-826072

Legacy of ‘Meostan’ Still Haunts Haryana Hindus. | Struggle for Hindu Existence, accessed August 8, 2025, https://hinduexistence.org/2023/08/04/the-legacy-of-meostan-still-haunts-haryana-hindus/

TRIUMPHS – Daily Pioneer, accessed August 8, 2025, https://www.dailypioneer.com/uploads/2020/epaper/november/vijayawada-english-edition-2020-11-06.pdf

In the shadow of Partition, state-sanctioned atrocities aimed to wipe out Meo Muslims in Mewat ( Scroll ) – Hindutva Watch, accessed August 8, 2025, https://www.hindutvawatch.org/in-the-shadow-of-partition-state-sanctioned-atrocities-aimed-to-wipe-out-meo-muslims-in-mewat-scroll/

The Story of the 1947 Partition as Told by the People Who Were There, accessed August 8, 2025, https://www.neh.gov/article/story-1947-partition-told-people-who-were-there

Lahore and Alwar: 1947- 48 | India of the Past, accessed August 8, 2025, http://www.indiaofthepast.org/r-c-mody/major-events-pre-1950/lahore-and-alwar-1947-48

The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed – Fair Observer, accessed August 8, 2025, https://www.fairobserver.com/region/central_south_asia/punjab-bloodied-partitioned-and-cleansed/

گاندھی اور میوات کا رشتہ کے عنوان پر سیمینار – ETV Bharat, accessed August 8, 2025, https://www.etvbharat.com/urdu/national/state/uttar-pradesh/seminar-on-the-topic-relation-between-gandhi-and-mewat/na20201220154133094

Partition of India – Wikipedia, accessed August 8, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Partition_of_India

Intergenerational Trauma in the Context of the 1947 India–Pakistan Partition – PMC, accessed August 8, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC10257180/

Pakistan (Chapter 4) – Refugee Crises, 1945-2000 – Cambridge University Press, accessed August 8, 2025, https://www.cambridge.org/core/books/refugee-crises-19452000/pakistan/07209C51196C8A2E2705FEB6E7092F78

ہجرت کی تلخ داستان اور آئی اے رحمٰن – Opinions – Dawn News Urdu, accessed August 8, 2025, https://www.dawnnews.tv/news/1084837

Interviews | The 1947 Partition Archive – Spotlight Exhibits – Stanford University, accessed August 8, 2025, https://exhibits.stanford.edu/1947-partition/browse/interviews

میو برادری میں رائج نیوتہ کی رسم کا حکم – دار الافتاء . انفو, accessed August 8, 2025, https://www.darulifta.info/d/banuritown/fatwa/2iG/myo-bradry-my-rayg-nyot-ky-rsm-ka-hkm

‘میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے’: ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟ – loksujag.com, accessed August 8, 2025, https://loksujag.com/story/How-Did-Mewati-Gain-Language-Status-76-Years-After-Migration

Miseries of the West Punjab (1947-1955): Moment of Truth, accessed August 8, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/HistoryPStudies/PDF_Files/04_v31_2_july2018.pdf

صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed August 8, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme