انسانی جسم میں ریاح کا کردار
انسانی جسم قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ان کا تناسب برقرار رہے تو ہر چیز بہتر انداز میں کام کرتی ہے معمولی بے اعتدالی پیدا ہوجائے تو جسم انسانی کے لئے وبال کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔جب غذا کھائی جائے یا غذائی ضرورت پوری کی جائے تو اس کا معتدل ہونا ضروری ہوتا ہے۔غذا کے ہضم کا مرحلہ معدہ سے پہلے منہ میں نوالہ چبانے سے شروع ہوجاتا ہے۔ منہ کے اندر قدرتی طورپر جو اجزاء کھانے کو جزو بدن بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہین وہ چبانے کے دوران لعاب دہن شامل ہوجانے سے شروع ہوجاتے ہیں۔ غذا معدہ میں جانے سے پہلے اگر اتنی چبالی جائے کہ وہ استحالہ کی شکل اختیار کرلے تو انسانی صحت کے لئے یہ سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔
یہ بھی مطالعہ کریں
تحریک امراض اور علاج از حکیم قاری محمد یونس مفرد اعضاء
غذا چبانے کی حد کیا ہے؟
بہت سے اقوال و فرامین موجود ہین جو اساطین طب کے کتب طب میں موجود ہیں۔ہر ایک نہ تو ان کا ان کا مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کی پہنچ ہے۔ان کا خلاصۃ یہ سمجھئے کہ لقمہ اس وقت تک چبایا جائے کہ ہر دانت کے نیچے سے ایک بار گزر جائے ۔ہمارے بتیس دانت ہوتے ہیں۔جس لقمہ کو 32 بار چبا لیا جائے اسے جزو بدن ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔۔اس وقت لوگ دانتوں کا کام بھی معدہ سے لے رہے ہیں۔معدہ کو اتنی مشقت سے دورچار کردیتے ہیں کہ وہ چیخ اٹھتا ہے۔ثقیل غذا ۔مرغن کھانے۔اقوسام و انواع کے پکوان یک دم معدہ میں اتار دیتے ہیں۔جب تک طبیعت انہیں ٹھکانے لگانے کی تدابیر کرتی ہے ۔دوسرا کھانا ٹھونس لیتے ہیں۔ پھر معدہ کی رہی سہی کسر معدہ کے ٹانک اور ادویات پھکیوں سے پوری کردی جاتی ہے۔اس وقت معدہ سے کام نہیں لیا جاتا اسے مجبور کردیا جاتا ہے ۔
داوائوں اور ہاضمولوں کی تباہ کاریاں۔
جب معدہ بھرجاتا ہے تو اسے مزید بھرنے کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔جب کہ معدہ کو سستانے اور آرام کی ضرورت تھی وہاں معدہ کو مجبور کرنے کے لئے ہاضمولے۔پھکیاں۔سیرپ اور ٹانک کھائے جاتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ مصنوعی سہارے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔اگلا قدم پرہیزوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان لوگوں کا برا حال ہوتا ہے جب معالج ان کی ساری نعمتوں پر پابندی لگاکر پرہیز کی مچھیکی ان کے منہ پر ڈال دی جاتی ہے۔اس کے بعد ان کے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیاء کے بجائے دوائوں کا شاپر ہوتا ہے۔جب لوگ انواع و اقسام کا کھانہ کھارہے ہوتےے ہیں تو وہ اپنی محرومیوں سےے چہرے کو چھپائے لوگوں کو یہبتاتے ہوئے خفت ہلکی کرتے ہیں کہ معالجین نے اس کا کھانے پینے پر پابندی لگائی ہوئی۔سوائے
پرہیزی کھانے کے ہر قسم کی غذا سے منع کردیا ہے۔اگر بدپرہیزی کرونگا تو طبیعت خراب ہوجائے گا۔
معدہ صحت یا امراض کا گھر ہے
جب معدہ خراب ہوجائے تو گیسیں بننا شروع ہوجاتی ہیں ۔یہی غیر طبعی گیسز انسانی جسم میں پھیلتی ہیں تو جہاں جہاں ان کا دبائوبڑھتا ہے تو وہیں پر دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔یہ ہوائی دبائو جوڑوں میں ہو تو جوڑ درد۔پیٹ میں ہوجائے تو پیٹ درد۔تبخیر معدہ معدہ ہوتو ذۃنی سکون برباد۔بخارات اٹھنے لگ جائیں تو مریض کو دوررہ پڑنے لگتا ہے۔گیس سے بھرے پیٹ کے ساتھ نیند کرلی جائے تو ڈرائونے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ رحم میں جمع ہوجائے تو بائو گولہ۔۔گردوں میں جمع ہوجائے تو گردہ کی تکلیف۔حتی کہ اس وقت ہارٹ اٹیک کے کیسز بکثرت دکھائی دیتے ہیں اس کثیر الوقوع مرض پر بے شمار وسائل برباد کئے جاتے ہیں۔اگر کوشش کرلی جائے کہ ٹھیک تشخیص کی صورت پیدا ہوسکے تو اس تکلیف دہ علاج سے مریض کی جان خلاصی ہوجائے۔
ریاح اور جدید میڈیکل رویہ
اس بارہ میں جدید میڈیکل تشخیص میں ریاح کے امراح کا کوئی تصور نہیں ہے ۔تکلیف کے وقت مریضوں کو ٹیسٹ لکھ کر دئے جاتے ہیں۔لیکن جب ٹیسٹوں میں کچھ نہین آتا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹیسٹ کلیئر ہیں،علاج کس مرض کا کریں؟۔یعنی میڈیکل میں ریاح سے ہونے والی تکلیف کو تکلیف تسلیم نہیں کرتی۔مریض درد و تکلیف سے مررہاہوتا ہے۔معالج کہتا ہے ٹیسٹ کلئیر ہیں کیسا علاج؟
یہ ایک دو مریضوں کا مسئلہ نہیں ہزاروں لوگوں کا مسئلہ ہے۔جب تک ریاحی امراض کو ٹھیک انداز مین تشخیص نہیں کیا جاتا اس وقت تک دردوں اور تکالیف کا تدارک نہیں ہوسکتا۔سائنسی انسانی کاوش کا بہترین رخ ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جسم انسانی کے بارہ مین وہ مکمل تحقیق کرچی ہے۔بہت سے شعبے ایسے ہین جن پر تحقیق باقی ہے۔سائنس کا وہی رخ آگے بڑھتا ہے جو تحقیق کرنے والوں کے ذہن میں ہوتا ہے اسی رخ پر کام کیا جاتا ہے۔
ابھی تک تحقیق کرنے والوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا تو کہاں سے اس کا علاج کریں گے؟البتہ دیسی طب میں ہزاروں سال پہلے سے ریاح کی تکالیف کو تسلیم کیا جارہا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی اس کی توجیح موجود ہے۔
ایک صحابی مسجد میں اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے ۔انہیں نماز کا کہا گیا۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار دوپہر کو چلے ، میں بھی چلا ، تو میں نے نماز پڑھی پھر بیٹھ گیا ، اتنے میں نبی اکرم ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : ” « اشكمت درد » کیا پیٹ میں درد ہے “ ؟ میں نے کہا : ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : ” اٹھو اور نماز پڑھو ، اس لیے کہ نماز میں شفاء ہے “(حدیث)
ریاح اور انسانی جسم میں پیدا ہونے والی تکالیف کے بارہ میں دیسی طب کے پاس جدجد میڈیکل معلومات سے زیادہ معلومات ہیں۔ کتب طب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نسخہ جات کی مد میں معدہ پیٹ وغیرہ کے نسخوں کی تعداد دیگر امراض کے نسخوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کتاب کا نمونہ مفرد اعضا کے اساتذۃ کی کتب سے اخذکیا گیا ہے ان کے حوالہ جات بھی ساتھ میں دےدئے گئے ہیں۔
ریاح رکنے سے موت بھی ہو سکتی ہے
ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں شخص رات بالکل ٹھیک سویا تھا آدھی رات اچانک تکلیف ہوئی اور چل بسا۔ تو ہم سب اور معالجین اسے ہارٹ اٹیک کہتے ہیں لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ریاح کے رکنے سے ہونے والی موت ہارٹ اٹیک سے بھی جلدی ہوتی ہے بالکل اسی طرح عورتوں میں اکثر دل کے امراض سے ملتی جلتی تکالیف میں میں متلاعورتوں کو حقیقت میں دل کی تکالیف نہیں ہوتی بلکہ انہیں بندش حیض یا تنگی حیض ہوتا ہے جس کا دباؤ دل اور اس کے پردوں پر پڑ کر انجائینا جیسا درد ہونے لگتا ۔ ہے اور مریض یہ سمجھتا ہے کہ وہ دل کا مریض ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے ایسی عورتوں کو بدر حیض دوا دینے سے دل کے مقام پر ہونے والی تمام غیر طبعی علامات ٹھیک ہو جاتی ہیں۔