حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی

0 comment 13 views

طب یونانی میں تجدید اور قانون مفرد اعضاء کا انقلابی نظریہ

Advertisements

حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی

طب یونانی میں تجدید اور قانون مفرد اعضاء کا انقلابی نظریہ

از

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

حرف آغاز

طب کی تاریخ میں بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا کام محض روایتی طریقوں کی پیروی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علم و تحقیق سے ایک نئے دور کا آغاز کرتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے طبی افق پر حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانیؒ ایک ایسی ہی عبقری شخصیت کے طور پر ابھرے، جنہوں نے طب یونانی کو ایک نئی جہت بخشی اور اسے جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ ہر سال 30 مئی کو ان کا یوم وفات منایا جاتا ہے ، جو ان کی لازوال خدمات اور طبی دنیا پر ان کے گہرے اثرات کو یاد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ دن صرف ایک یادگاری تقریب نہیں بلکہ ان کے انقلابی نظریات کی از سر نو جانچ اور ان کی معاصر اہمیت پر غور و فکر کا محرک بھی ہے۔ ان کی وفات کی تاریخ کا بارہا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کی یاد اور ان کے کام کی قدر و منزلت ان کے پیروکاروں اور وسیع تر طبی برادری کے لیے کتنی اہم ہے۔  

حکیم صابر ملتانی کا کام محض طب کی معمولی اصلاح نہیں تھا بلکہ یہ ایک مکمل “تجدید” اور انقلاب تھا، جس نے طب و حکمت پر صدیوں سے پڑی “خس و خاک کو صاف کرکے” [User Query] اس کا روشن اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کا مقصد طب یونانی کو ایک فطری، یقینی اور بے خطا علاج کے طور پر دوبارہ زندہ کرنا تھا۔ ان کی یہ کوششیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت کی طب میں جمود یا زوال کا احساس کیا تھا، اور ان کا “قانون مفرد اعضاء” محض ایک اضافہ نہیں بلکہ روایتی نظام کی بنیادی از سر نو تشخیص اور بحالی کی ایک کوشش تھی، جس کا مقصد اسے عصری صحت کے چیلنجوں کے لیے مزید منظم، سائنسی اور مؤثر بنانا تھا۔ انہوں نے قدیم طب کی خامیوں، دشواریوں اور شکوک و شبہات کو حل کیا، خاص

Zاختراع ہی ان کے “انقلابی” لقب کی حقیقی تعریف ہے۔  

I. حکیم صابر ملتانی: ایک عبقری شخصیت اور تاریخی تناظر

ابتدائی زندگی اور طبی سفر

حکیم دوست محمد صابر ملتانی کا اصل نام حکیم دوست محمد صابر تھا اور ان کا انتقال 30 مئی 1980 کو ہوا ۔ اگرچہ ان کی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں مخصوص تفصیلات دستیاب مواد میں زیادہ واضح نہیں ہیں ، لیکن ان کے “حکیم انقلاب” کے لقب اور “قانون مفرد اعضاء” کے بانی ہونے کا اعتراف ان کے گہرے طبی سفر اور علمی ریاضت کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی تمام کتب کا مجموعہ، جو “کلیات تحقیقات صابر ملتانی” کے نام سے دو جلدوں میں دستیاب ہے، ان کے علمی ورثے کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی کتب کو طبی شعبے سے وابستہ ہر شخص کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے، خواہ وہ طب یونانی، ایلوپیتھک یا ہومیوپیتھک سے تعلق رکھتا ہو ۔ ان کی تصانیف کی کثرت، جن میں تقریباً 19 تحقیقی کتب اور بے شمار رسائل شامل ہیں، ایک ایسے علمی اور تحقیقی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو صرف طب کی عملی مشق تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد اپنے علم کو منظم کرنا اور اسے وسیع پیمانے پر پھیلانا تھا۔ یہ علمی ورثہ ان کے انقلابی خیالات کی پائیداری اور رسائی کو یقینی بناتا ہے، جس سے آئندہ نسلیں ان کے نظریات کا مطالعہ، تنقید اور اطلاق کر سکتی ہیں۔  

برصغیر میں طب کا ارتقاء اور حکیم صابر ملتانی کا منفرد مقام

برصغیر پاک و ہند نے بڑے نامور حکماء پیدا کیے جنہوں نے نبض شناسی، قارورہ سے تشخیص، نسخہ سازی، دوا سازی، کیمیا گری، اور یہاں تک کہ ادب و سیاست میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں [User Query]۔ تاہم، حکیم صابر ملتانی کا کام ان سب سے “اعلیٰ اور جدا” [User Query] قرار دیا جاتا ہے، جس نے ایک نیا راستہ، سوچ اور نقطہ نظر پیش کیا۔ طب یونانی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، جس کی بنیاد حکیم لقمان نے 1100 قبل مسیح میں رکھی ۔ مسلمان سائنسدانوں نے اس میں نئے تجربات سے جدت پیدا کی، لیکن ایک طویل عرصے تک اس شعبے میں کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے نہیں آئی جو جدید یورپی تحقیقات کی طرف توجہ مبذول کراسکتی ۔ حکیم صابر ملتانی نے اسی “سکوت” کو توڑا۔ ان کی 40 سال کی تحقیق نے “قانون مفرد اعضاء” کو دریافت کیا، جسے غیر متعصب دنیا نے نظریاتی اور عملی طور پر درست تسلیم کیا۔ ان کا یہ کارنامہ طب یونانی کو محض محفوظ رکھنے کی بجائے اسے فعال طور پر دوبارہ جانچنے اور آگے

بڑھانے کی کوشش تھی، جس نے انہیں روایتی طب کے جدید دور کا ایک اہم احیاء پسند بنا دیا۔  

عظیم اطباء سے موازنہ: جالینوس، ابن رشد، زکریا رازی، خوارزمی اور شیخ بوعلی سینا

حکیم صابر ملتانی کے علمی مقام کی بلندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا موازنہ عام شربت، جوشاندے اور خیساندے فروشوں سے کرنا “پرلے درجے کی جہالت” [User Query] قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، ان کا علمی موازنہ جالینوس، ابن رشد، زکریا رازی، خوارزمی اور شیخ بوعلی سینا جیسے عظیم محققین سے کیا جاتا ہے [User Query]۔ شیخ بوعلی سینا کی شہرہ آفاق کتاب “القانون” آٹھ صدیوں تک یورپی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی اور جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد بنی ۔ حکیم صابر ملتانی کا کام بھی اسی علمی روایت کا تسلسل اور ارتقاء ہے، جس نے طب کے اعلیٰ ترین فکری دھارے کو آگے بڑھایا۔ یہ موازنہ صرف ان کی ذاتی عظمت کا اعتراف نہیں بلکہ ان کے “قانون مفرد اعضاء” کو ایک نئے بنیادی نظریے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے، جو صدیوں تک طبی فکر پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ان کے نظام کو روایتی علاج کے بجائے ایک جدید سائنسی اور فلسفیانہ نظام کے طور پر پیش کرتا ہے، جو عالمی

تاریخی تناظر میں علمی جانچ کے قابل ہے۔  

II. قانون مفرد اعضاء: طب کا ایک نیا افق

نظریہ مفرد اعضاء کی فلسفیانہ اور سائنسی بنیادیں

حکیم صابر ملتانی کا “قانون مفرد اعضاء” طب میں ایک نئی پیشکش ہے، جو امراض کو اخلاط (Humors) کے بجائے اعضاء (Organs) کے حوالے سے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے [User Query]۔ یہ نظریہ اعضاء رئیسہ (Principal Organs) کے اندر موجود تین قسم کے حیاتی خلیوں – اعصابی، عضلاتی اور غدی – پر بحث کرتا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق، کسی ایک اعضاء رئیسہ کے افعال میں خلل بیماری کا سبب بنتا ہے، اور اس عضو کے افعال کو درست کرنے سے جسم میں اخلاط متوازن ہو

ہمارے استاد محترم ہمارے محسن جناب المعالج دوست محمد صابر ملتانی رحمةاللہ علیہ کے صاحبزادے مسلم ناصر شکیل صاحب عفی عنہ کا آخری دیدار

جاتے ہیں اور کھوئی ہوئی صحت بحال ہو جاتی ہے ۔  

اس نظریے کی سائنسی بنیادوں کو مزید تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ “قانون مفرد اعضاء” کے مطابق تیار کردہ مرکبات کی پی ایچ (pH) ویلیو حکیم صابر ملتانی کے بتائے ہوئے مزاج کے عین مطابق ثابت ہوئی ہے ۔ یہ ایک خوشگوار حیرت کی بات تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون مفرد اعضاء کی بنیاد سائنسی اور جدید ہے۔ ان کی کتاب “بائیوکیمک اور نظریہ مفرد اعضاء” بھی ان کے نظریے کی سائنسی جڑوں کو مزید واضح کرتی ہے۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے روایتی تصورات (مزاج) کو جدید سائنسی طریقوں (پی ایچ پیمائش) کے ذریعے توثیق دینے کی کوشش کی، جس سے قدیم حکمت اور عصری سائنسی فہم کے درمیان ایک پل قائم ہوا۔ یہ ان کی دور اندیشی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے طبی نظام کو تجرباتی بنیادوں پر پرکھنا چاہتے تھے، جس سے اس کی ساکھ اور جدید دور میں اس کی عملیت میں اضافہ ہوا۔  

اخلاطی طب سے اعضاء پر مبنی تشخیص و علاج کی طرف منتقلی

روایتی طب یونانی چار اخلاط – خون، بلغم، صفرا اور سودا – کے تصور پر مبنی ہے، اور ان کا توازن صحت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ حکیم صابر ملتانی نے اس روایتی نقطہ نظر سے ہٹ کر اعضاء کو مرکزی حیثیت دی [User Query]۔ ان کے مطابق، اخلاط براہ راست اعضاء میں تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ان کی ترکیب سے ایک ثانوی رطوبت بنتی ہے جو پھر اعضاء کی تشکیل کرتی ہے ۔ “قانون مفرد اعضاء” اس ثانوی رطوبت کے بجائے براہ راست اعضاء کے افعال پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔  

حکیم محمد یاسین چاولہ کی کتاب “مختصر تشریح قانون مفرد اعضاء” اس انقلابی نظریے کی اصطلاحات کی تفصیلی وضاحت پیش کرتی ہے اور اس میں اخلاط، بول و براز (پیشاب و پاخانہ)، نظام ہضم اور انسانی زہر جیسے موضوعات پر مکمل ابواب شامل ہیں۔ اخلاط سے اعضاء کی طرف یہ منتقلی بیماری کے پیتھولوجیکل سمجھنے میں ایک اہم نظریاتی تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ جسمانی افعال کی زیادہ براہ راست اور میکانکی تفہیم کی طرف بڑھنے کی کوشش تھی، جس سے تشخیص اور علاج کے طریقے زیادہ واضح اور مؤثر ہو سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر روایتی اخلاطی نظریے کے مقابلے میں بیماریوں کی زیادہ مخصوص اور قابل عمل تفہیم فراہم کرتا ہے، جو تشخیص اور علاج کے عمل کو ممکنہ طور پر آسان بناتا ہے۔  

طب کو ایٹمی تحقیق سے منسلک کرنے کا نظریہ

حکیم صابر ملتانی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے طب کو “ایٹم کی تحقیق کے ساتھ منسلک” [User Query] کیا، ان کے دور کے لیے ایک انتہائی بلند اور دور رس سوچ کا مظہر ہے۔ اگرچہ دستیاب مواد میں اس نظریے کی براہ راست سائنسی تفصیلات یا ایٹمی طبیعیات سے اس کے لفظی تعلق کی وضاحت موجود نہیں ہے ، اس دعوے کو ان کی طبی فلسفے کی گہرائی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا وژن صرف ظاہری جسمانی عمل تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ حیاتیاتی افعال کی بنیادی، مائیکروسکوپک یا توانائی کی سطح کو سمجھنا چاہتے تھے۔ “ایٹمی” کا لفظ یہاں جسم کے بنیادی ترین اجزاء اور ان کے باہمی تعاملات کو سمجھنے کی کوشش کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے، جیسا کہ جدید حیاتیات مالیکیولر اور سیلولر میکانزم میں گہرائی سے جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو روایتی طب کو اپنے دور کی جدید ترین سائنسی فکر کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ان کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے، جو ایک ترقی پسند اور تجزیاتی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔  

III. حکیم صابر ملتانی کی تحقیقاتی کتب اور ان کا علمی ورثہ

حکیم صابر ملتانی نے تقریباً 19 تحقیقاتی کتب اور بے شمار رسائل لکھے [User Query]۔ ان کی یہ تصانیف محض روایتی معلومات کا مجموعہ نہیں بلکہ ان کے انقلابی نظریات، گہری تحقیق اور عملی تجربات کا نچوڑ ہیں۔ ان کی “کلیات تحقیقات صابر ملتانی” ان کی تمام کتب کا مجموعہ ہے جو دو جلدوں میں دستیاب ہے۔ ان کی اہم تصانیف اور ان کے موضوعات درج ذیل جدول میں پیش کیے گئے ہیں:  

جدول 1: حکیم صابر ملتانی کی اہم تصانیف اور ان کے موضوعات

عنوان (اردو)عنوان (انگریزی ترجمہ)موضوع / توجہ کا مرکزکلیدی شراکت / اہمیتمتعلقہ حوالہ جات
تحقیقات سوزش و اورامResearch on Inflammation and Swellingsسوزش اور ورم کی پیتھالوجیسوزش کے جدید تصورات کو روایتی فہم کے ساتھ جوڑنا، جو ان کے اعضاء پر مبنی نظریے کے مطابق ہے۔
فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہےWestern Medicine is Unscientific and Wrongمغربی طب پر تنقیدمغربی طبی پیراڈائم کو فکری چیلنج، روایتی طریقوں کی سائنسی صداقت پر زور۔
تحقیقات ٹی بی انسانیت کے لیے آپ کا صدقہ جاریہResearch on TB, an Ongoing Charity for Humanityتپ دق (ٹی بی) کا علاجتپ دق کے لیے گہری تحقیق اور ایک مخصوص علاج، انسانیت کے لیے ایک جاری صدقہ۔
تریاق تپ دقAntidote for Tuberculosisتپ دق (ٹی بی) کا مخصوص نسخہتپ دق کے لیے ایک عظیم طبی نسخہ، جسے واقعی تریاق صفت دوا قرار دیا گیا ہے۔[User Query]
کلیات تحقیقات صابر ملتانیCollected Research of Sabir Multaniجامع طبی تحقیقاتان کے تمام علمی کام کا مجموعہ، جو ان کے علم کو طبی دنیا کے لیے قابل رسائی بناتا ہے۔
تحقیقات فارماکوپیاResearch Pharmacopoeiaفارماکولوجی، ادویہ سازیان کے نظام کے تحت ادویہ کی تیاری اور استعمال کے لیے ایک منظم رہنما کتاب۔
اسرار النبضSecrets of Pulseنبض کی تشخیصنبض کی تشخیص کی تفصیلی وضاحت، تمام اقسام کو چھ صورتوں میں خلاصہ کرنا۔

تحقیقات سوزش و اورام: سوزش کے جدید تصورات

حکیم صابر ملتانی کی کتاب “تحقیقات سوزش و اورام” سوزش جیسے بنیادی پیتھولوجیکل عمل پر ان کی گہری بصیرت کو ظاہر کرتی ہے۔ سوزش ایک عام جسمانی ردعمل ہے جو کسی چوٹ یا انفیکشن کے نتیجے میں ہوتا ہے ۔ روایتی طور پر اسے لالی، گرمی، سوجن اور تکلیف جیسی علامات سے پہچانا جاتا ہے ۔ حکیم صابر ملتانی کی “تحقیقات” اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انہوں نے سوزش کو صرف ایک مقامی ردعمل کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اسے اعضاء کے مخصوص عدم توازن کے مظہر کے طور پر دوبارہ تصور کیا۔ یہ نقطہ نظر سوزش کے لیے ایک نیا تشخیصی اور علاج کا طریقہ فراہم کرتا ہے، جو بیماری کی جڑ تک پہنچنے کی ان کی کوشش کا حصہ تھا۔ ان کا کام روایتی فہم کو عصری طبی تحقیق کے ساتھ جوڑنے کی ایک کوشش تھی، جس سے اس عام حالت کے لیے زیادہ مؤثر اور جامع علاج کے طریقے وضع کیے جا سکیں۔  

فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے: مغربی طب پر تنقیدی جائزہ

حکیم صابر ملتانی کی کتاب “فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے” مغربی طب پر ان کی جرات مندانہ اور غیر متزلزل تنقید کا مظہر ہے۔ انہوں نے نہ صرف اخلاط کے تصور پر یورپی طب کے اعتراضات کا جواب دیا بلکہ دس ہزار روپے کی رقم کے ساتھ علمی و تحقیقی سوالات اٹھا کر چیلنج بھی کیا، جن کا جواب یورپی طب آج تک نہیں دے سکی [User Query]۔ اگرچہ اس چیلنج کی مخصوص تفصیلات دستیاب مواد میں واضح نہیں ہیں ، یہ عمل ان کے اپنے نظام پر غیر متزلزل اعتماد اور غالب مغربی طبی پیراڈائم کے خلاف ان کی فکری خودمختاری کا ایک طاقتور علامتی اظہار ہے۔ یہ محض ایک غیر فعال اختلاف نہیں تھا بلکہ روایتی طب کے لیے علمی اختیار کو دوبارہ حاصل کرنے اور اس کی بے قدری کو چیلنج کرنے کی ایک فعال اور عوامی کوشش تھی۔ اس سے ان کی یہ گہری یقین دہانی ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا “قانون مفرد اعضاء” سائنسی طور پر مضبوط اور مغربی طب سے زیادہ مؤثر ہے۔  

تحقیقات ٹی بی اور تریاق تپ دق: تپ دق کے علاج میں انقلابی پیشرفت

تپ دق (ٹی بی) ایک عالمی صحت کا مسئلہ ہے جو لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے اور موت کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ حکیم صابر ملتانی نے اس سنگین بیماری کے علاج میں نمایاں خدمات انجام دیں، جس کا ثبوت ان کی کتاب “تحقیقات ٹی بی” اور ان کا شہرہ آفاق نسخہ “تریاق تپ دق” [User Query] ہے۔ ان کی یہ تحقیقات انسانیت کے لیے “صدقہ جاریہ” [User Query] قرار دی گئی ہیں، جو ان کی عملیت پسندی اور انسانیت کی خدمت کے جذبے کو ظاہر کرتی ہیں۔ “تریاق تپ دق” کو واقعی “تریاق صفت دوا” [User Query] کہا گیا ہے، جو اس کی غیر معمولی افادیت کی نشاندہی کرتا ہے۔  

ان کا کام اس بات کا ثبوت ہے کہ روایتی طب، خاص طور پر ان کا “قانون مفرد اعضاء”، ٹی بی جیسے بڑے صحت کے بحرانوں کے لیے مؤثر اور ممکنہ طور پر کم مضر علاج فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر جدید طب میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر ۔ یہ ان کی عوامی صحت کے لیے وابستگی اور اس یقین کو ظاہر کرتا ہے کہ فطری اور روایتی طریقے بھی جدید دور کے امراض کا مؤثر حل پیش کر سکتے ہیں۔  

IV. عملی جدتیں اور طبی چیلنجز

نبض کی تشخیص: کل اقسام کو 6 صورتوں میں سمو دینا

نبض کی تشخیص طب یونانی کا ایک بنیادی ستون ہے، جسے بقراط، رازی اور افلاطون جیسے عظیم اطباء نے بھی سراہا ہے ۔ حکیم صابر ملتانی نے نبض کی تشخیص کے پیچیدہ فن کو ایک انقلابی سادگی بخشی۔ انہوں نے نبض کی تمام اقسام کو صرف چھ بنیادی صورتوں میں سمو دیا ۔ ان کی کتاب “اسرار النبض” میں نبض کی ان چھ صورتوں کی تفصیلی وضاحت اور نبض دیکھنے اور سمجھنے کا مکمل طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہ سادگی تشخیص کو زیادہ قابل رسائی اور درست بناتی ہے، جو ان کے نظام کی ایک اہم عملی جدت ہے۔ نبض کی تشخیص کو اس طرح منظم کرنا ایک اہم عقلی اور نظام سازی کا عمل تھا، جس کا مقصد اس فن کو زیادہ معیاری اور قابل تعلیم بنانا تھا، تاکہ تشخیص میں ابہام کم ہو اور اس کی قابل تکرار صلاحیت میں اضافہ ہو۔ یہ جدت نبض کی تشخیص کو وسیع تر طبیبوں کے لیے قابل عمل بناتی ہے، جس سے ان کے نظام میں تشخیص میں یکسانیت کو فروغ ملتا ہے اور روایتی تشخیص کی درستگی اور قابل اعتمادی میں ممکنہ طور پر بہتری آتی ہے۔  

جدول 2: قانون مفرد اعضاء کے تحت نبض کی چھ صورتیں اور ان کی خصوصیات

نبض کی صورت (نام / تفصیل)خصوصیات (مثلاً موٹائی، رفتار، نرمی وغیرہ)متعلقہ عضو / مزاجاشارہ کن حالات / بیماریاں
دستیاب نہیںدستیاب نہیںدستیاب نہیںدستیاب نہیں

Export to Sheets

نوٹ: دستیاب مواد میں حکیم صابر ملتانی کے بیان کردہ نبض کی چھ صورتوں کی مخصوص خصوصیات اور ان کے متعلقہ اعضاء یا مزاج کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ ان تفصیلات کے لیے ان کی اصل کتب، بالخصوص “اسرار النبض” سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ یہ جدول اس اہم معلومات کے لیے ایک جگہ کا کام کرتا ہے جو ان کے تشخیصی طریقہ کار کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے۔

علاج بالغذاء کا قانون: غذا سے علاج کا جامع طریقہ

حکیم صابر ملتانی نے “علاج بالغذاء” (غذا کے ذریعے علاج) کا قانون پیش کیا [User Query]، جو ان کے طبی نظام کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت، ادویات کا استعمال شاذ و نادر ہوتا ہے ، اور علاج بنیادی طور پر غذائی تبدیلیوں پر منحصر ہوتا ہے، جو خالق اور مخلوق کی جسمانی ساخت اور غذائی طاقت پر مبنی ہے ۔ پاکستان میں علاج بالغذاء کے احیاء اور فروغ میں حکیم انقلاب صابر ملتانی کی مساعی جمیلہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کے شاگرد حکیم محمد رفیق شاہین کے مطابق، خراب صحت کی بحالی میں 50 فیصد غذا، 25 فیصد ماحول اور 25 فیصد ادویہ کا حصہ ہے ۔  

یہ نقطہ نظر صحت کی دیکھ بھال کا ایک جامع اور فطری فلسفہ پیش کرتا ہے، جو مریض کو خود اپنی صحت کی دیکھ بھال میں بااختیار بناتا ہے۔ یہ ایک مریض پر مبنی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہے جہاں صحت کا انتظام بنیادی طور پر طرز زندگی اور خوراک کے ذریعے کیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ صرف بیرونی ادویات پر انحصار کیا جائے۔ یہ طریقہ کار خاص طور پر محدود وسائل والے علاقوں میں پائیدار اور قابل رسائی صحت کی دیکھ بھال کا ماڈل فراہم کرتا ہے، جہاں خوراک کو دوا کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسے جسم کے قدرتی عمل کے ساتھ گہرائی سے مربوط کیا جاتا ہے۔

منظم فارماکوپیا کی تشکیل اور ادویہ سازی کے اصول

حکیم صابر ملتانی نے طبی دنیا کو ایک “منظم فارماکوپیا” [User Query] فراہم کیا، جو ان کے انقلابی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کی کتاب “تحقیقات فارماکوپیا” اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ادویہ کی تیاری، اوزان، مقدار خوراک اور مطلوبہ فوائد کو منظم کرنے پر زور دیا۔ ایک موبائل ایپلیکیشن بھی موجود ہے جس میں “طب یونانی اور قانون مفرد اعضاء” کا مکمل فارماکوپیا شامل ہے، جس میں نسخہ جات کی تیاری اور استعمال سے متعلق آسان معلومات اور ہدایات دی گئی ہیں ۔  

یہ منظم نقطہ نظر روایتی طب میں ایک عام چیلنج کو حل کرتا ہے، یعنی تیاری اور خوراک میں تغیر۔ ایک واضح فارماکوپیا فراہم کرکے، حکیم صابر ملتانی نے اپنے نظریے پر مبنی علاج کے معیار کنٹرول اور مستقل مزاجی کی بنیاد رکھی، جس سے یہ نظام زیادہ قابل اعتماد اور قابل تکرار بن گیا۔ ان کی ادویہ سازی کے اصولوں نے مفرد ادویہ کے مرکبات کو “قانون مفرد اعضاء” کی چھ تحریکات کے مطابق تقسیم کیا، تاکہ عام آدمی بھی اس سے مستفید ہو سکے ۔ یہ ان کے نظام کو وسیع پیمانے پر اپنانے اور مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے ضروری تھا۔  

یورپی طب کو دس ہزار روپے کا چیلنج: علمی جرات کا مظہر

حکیم صابر ملتانی کا یورپی طب کو دس ہزار روپے کا چیلنج [User Query] ان کی غیر معمولی علمی جرات اور اپنے نظریات پر پختہ یقین کا مظہر ہے۔ یہ چیلنج ایک علامتی عمل تھا جو غالب مغربی طبی پیراڈائم کے سامنے روایتی طب کی صداقت اور برتری کو ثابت کرنے کی ان کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ اس چیلنج کے مخصوص سائنسی سوالات اور اس کے نتائج کے بارے میں دستیاب مواد میں تفصیلات موجود نہیں ہیں ، یہ عمل ان کی فکری خودمختاری اور نوآبادیاتی دور کے اس بیانیے کو مسترد کرنے کی عکاسی کرتا ہے جو اکثر مقامی علمی نظاموں کو کم اہمیت دیتا تھا۔ یہ چیلنج، ایک تاریخی واقعے کے طور پر بھی، حکیم صابر ملتانی کے اپنے روایتی نظام کی سائنسی سختی اور افادیت پر غیر متزلزل یقین کو اجاگر کرتا ہے، جو انہیں صرف ایک طبیب ہی نہیں بلکہ طب یونانی کے ایک مضبوط محافظ کے طور پر پیش کرتا ہے۔  

V. حکیم صابر ملتانی کا دیرپا اثر اور وراثت

پاکستان اور عالمی سطح پر قانون مفرد اعضاء کا فروغ

حکیم صابر ملتانی کے “قانون مفرد اعضاء” نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل کی ہے ۔ پاک و ہند، افغانستان، عرب امارات اور بعض یورپی ممالک میں ہزاروں طبیب اس قانون کے مطابق علاج کر رہے ہیں ۔ ان کی بلند پایہ کتب کے انگریزی میں تراجم ہو رہے ہیں، اور ہندوستان میں ایک سینیٹوریم میں تپ دق کا کامیاب علاج ان کے جدید طب کے مطابق ہو رہا ہے، جہاں ان کا نام نمایاں طور پر درج ہے ۔ ان کے نظریات کو آج بھی پوری دنیا میں ایک فطری، یقینی اور بے خطا علاج کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کے کام کی یہ عالمی سطح پر پھیلاؤ اور مختلف ثقافتوں میں قبولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان کے نظریات جغرافیائی اور ثقافتی حدود سے بالا تر ہیں، جو ان کی افادیت، فطری نقطہ نظر اور منظم طریقہ کار کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔  

ان کے شاگردوں اور قائم کردہ اداروں کا کردار

حکیم صابر ملتانی کے علمی ورثے کو ان کے شاگردوں اور قائم کردہ اداروں نے فعال طور پر آگے بڑھایا ہے۔ “تحریک تجدید طب پاکستان” ایک ایسی ہی تنظیم ہے جسے حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی نے قائم کیا اور جسے بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ کروایا جا چکا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اپنے اسلاف کے ورثے کو قائم و دائم رکھنا اور اسے آگے بڑھانا ہے ۔ ان کے شاگردوں میں حکیم محمد رفیق شاہین جیسے نام شامل ہیں جنہوں نے “صابر شاہین ویلفیئر فاؤنڈیشن” جیسے فلاحی ادارے قائم کیے، جو ان کے نظریات کو عملی شکل دے رہے ہیں۔ ان کے شاگردوں کی تربیت اور “قانون مفرد اعضاء” پر مبنی کتب کی اشاعت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان کا مشن جاری رہے۔ یہ منظم کوششیں ان کے کام کو صرف ایک فرد کے نظریے سے نکال کر ایک منظم تحریک میں بدل دیتی ہیں، جو اس کے بقا اور ترقی کی ضمانت ہے۔ یہ ادارہ جاتی حمایت تحقیق، تعلیم اور عملی مشق کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتی ہے، “قانون مفرد اعضاء” کی سالمیت کو برقرار رکھتی ہے اور طبیبوں کی آئندہ نسلوں پر اس کے مسلسل اثر کو یقینی بناتی ہے۔  

طب یونانی کی خس و خاک صاف کرکے حقیقی چہرے کی پیشکش

حکیم صابر ملتانی کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی جدید طبی تحقیقات سے صدیوں سے طب پر پڑی “خس و خاک کو صاف کرکے طب و حکمت کا روشن اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا” [User Query]۔ ان کا یہ کام طب یونانی کو ایک نئے دور میں لے آیا، جہاں اسے نہ صرف ایک قدیم روایت کے طور پر دیکھا گیا بلکہ ایک سائنسی اور مؤثر نظام کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ طب یونانی محض علامات کا علاج نہیں کرتی بلکہ مجموعی طور پر انسانی صحت کو مستحکم کرتی ہے ۔ ان کی “کلیات قانون مفرد اعضاء” میں “انقلاب انگیز جدید تحقیق” شامل ہے جو قانون مفرد اعضاء اور طب یونانی کے بنیادی قوانین کو واضح کرتی ہے، اور اس کی ضرورت، اہمیت، فوائد، امراض و علامات کے ساتھ تطبیق اور موسم و کیفیات کے ساتھ تعلق کو بیان کرتی ہے۔ ان کی کوششیں صرف ایک نئے نظریے کو متعارف کرانے کے بارے میں نہیں تھیں بلکہ روایتی طب کی ساکھ اور مطابقت کو بحال کرنے کے بارے میں تھیں تاکہ یہ جدید دور میں مؤثر، عقلی اور جامع صحت کی دیکھ بھال کے حل پیش کر سکے۔  

نتیجہ:

حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی نے طب یونانی کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش باب رقم کیا۔ ان کا “قانون مفرد اعضاء” اخلاطی طب سے اعضاء پر مبنی تشخیص و علاج کی طرف ایک بنیادی تبدیلی کا نشان ہے۔ انہوں نے نبض کی تشخیص کو چھ صورتوں میں سمو کر اسے مزید قابل فہم بنایا، ایک منظم فارماکوپیا پیش کیا، اور علاج بالغذاء کو مرکزی حیثیت دی۔ ان کی تحقیقاتی کتب، خاص طور پر “تحقیقات سوزش و اورام” اور “تحقیقات ٹی بی” اور “تریاق تپ دق”، ان کی علمی گہرائی اور عملی افادیت کا ثبوت ہیں۔ مغربی طب کو ان کا دس ہزار روپے کا چیلنج ان کی علمی جرات اور اپنے نظریات پر غیر متزلزل اعتماد کا مظہر تھا۔

آج بھی ان کے نظریات پاکستان اور دنیا بھر میں ہزاروں طبیبوں کے لیے مشعل راہ ہیں، اور ان کے شاگرد اور قائم کردہ ادارے ان کے مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ بات قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو مغربی دنیا میں ایسی شخصیات کو ملتی ہے ۔ حکیم صابر ملتانی کا کام طب یونانی کی ساکھ کو بحال کرنے اور اسے جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے یوم وفات پر، ہم سب کو ان کے لیے دعا کرنی چاہیے [User Query] اور ان کے علمی ورثے کو مزید فروغ دینے کا عزم کرنا چاہیے تاکہ انسانیت ان کے روشن کردہ راستے سے مستفید ہوتی رہے۔  

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme