طب نبویﷺ میں فالج کا تصور اور اس کا علاج (راقم الحروف کی کتاب:۔ طب نبویﷺ میںفالج ۔کا علاج۔کا اقتباس۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)اللہ تعالیٰ نےجودین متین ہمیں دیا اس کی تکمیل کا اعلان بھی خود ہی فرمادیا کہ یہ دین ہر طرح سے مکمل ہوچکا ہے،اس میں تمام ادیان کاجوہر موجود ہے،تمام فطری ضروریات کی کفالت کرتا ہے دین اسلام فطری دین ہونے کی وجہ سے انسان کی دینی و دنیاوی ضروریات کے لئے ہدایات موجود ہیںاس کا طرہ امتیاز ہے کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔صحت وتندرستی میں جو احکامات دئے گئے ہیں بیماری کی حالت میں ان میں تخفیف کردی گئی ہے۔ تندرستی کی حالت میں عبادت کی جو ترتیب بتائی گئی ہے بیماری کی حالت میں اس میں تخفیف موجود ہے۔احادیث مبارکہ میں ایک حصہ ایسا بھی موجود ہے جسے اشراط الساعۃ کہا جاتا ہے یعنی قرب قیامت ظاہر ہونے والی علامات۔بہت سے موضوعات پر یہ پیش گوئیاں موجود ہیں اسی طرح امراض اور قرب قیامت رونما ہونے والے فتن و شرور سے متعلق بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بیماری فالج بھی ہے۔ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتراب الساعة إذا كثر الفالج وموت الفجاءة»مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 597)ترتيب الأمالي الخميسية للشجري (2/ 383)المجالسة وجواهر العلم (7/ 284)قرب قیا مت لوگوں پر فالج کے بکثرت حملے ہونگے،ناگہانی اموات کی کثرت ہوگی ۔فالج اور ناگہانی اموات اس قدر ہونے لگی ہیں کہ لوگ انہیں روزہ مرہ کی چیز سمجھنے لگے ہیں،جب کہ رسول اللہﷺ نے ناگہانی موت سے حفاظت کی دعائیں مانگی اور تعوذات میں اسے شامل فرمایاکوئی بھی چیز بغیر اسباب کے نہیں ہوتی ،عمومی طورپر جن باتوں کو اچانک و حادثاتی کہا جاتا ہے وہ اچانک رونما نہیں ہوتیں بلکہ وہ کسی تسلسل کا حصہ ہوتی ہیں لیکن اسباب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں اس لئے لاعلمی کی وجہ سے اسے اچانک کہا جاتا ہے ۔جب ہم سنتے ہیں کہ فلاں آدمی کو چانک دل کا دورہ پڑا ،بیٹھے بیٹھے فالج ہوگیا اچھا بھلاتھا دیکھتے ہی دیکھتےجان کی بازی ہار گیا۔در اصل یہ تمام باتیں اچانک نہیں ہوئیں بلکہ ایک تسلسل کا حصہ تھیں لیکن لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان اسباب کو پہچان نہ سکے یوں ناگہانی صورت سے دوچار ہوگئے۔آئمہ محدثین کو اللہ اپنی جناب سے جزائے خیر دے جنہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں ان کا سلسلہ خیر ہم تک پہنچا۔کچھ لوگوں نے امراض و مصائب کا موضوع منتخب کرکے دعائیں اوراد،وظائف اور ادویات لکھیں ان میں محدث ابن سنی بھی ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔وأخرج ابن السني وأبو نعيم عن أنس رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوشك أن يفشو الفالج في الناس حتى يتمنوا مكانه الطاعون – وقد مر أن من أسبابه شرب الخمر.حضرت انس رسول اللہﷺ سے روایت فرماتے ہیں عنقریب فالج کی کثرت ہوگی،(اس لاچاری میں لوگ)تمنا کریں گے کہ فالج کی جگہ طاعون آجاتا تو خلاصی ہوجاتی ہے۔اس کا سبب شراب(کی کثرت ) ہوگی۔دوسری جگہ یوں وارد ہوا ہے۔عن أنس بن مالك: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ليفشون الفالج الناس حتى يظن أنه طاعون»۔مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 597)السنن الواردة في الفتن للداني (3/ 698) یعنی فالج کے اٹیک اس قدر زیادہ ہونے لگ جائیں گے کہ لوگ اسے طاعون کی طرح وباء سمجھنے لگیںگے۔ ابن السنی اور ابو نعیم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک فالج پھیلنے والا ہے۔ جب تک کہ وہ طاعون کی جگہ پر طاعون کی خواہش نہ کریں اور یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اس کا ایک سبب شراب پینا ہے۔ حدیث نبوی اور اس کے طبی اثراتحدیث کا مفہوم: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عنقریب لوگوں میں فالج پھیل جائے گا یہاں تک کہ وہ مرنا چاہیں گے۔ اس کے بجائے طاعون ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ فالج کی ایک وجہ شراب پینا ہے۔حدیث شریف میں مستقبل میں فالج کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اس کا تعلق شراب پینے سے ہے۔ حدیث مبارکہ سے اخذ کردہ دس طبی نکات: فالج کا خطرہ: حدیث میں فالج کے خطرے اور انسانی زندگی پر اس کے عظیم اثرات کی وضاحت کی گئی ہے۔فالج ایک ایسی نامراد بیماری ہے ،تاثرہ مریض کو ہسپتال والے بھی داخل نہیں کرتے۔کیونکہ ان کے پاس اسکا کوئی حل موجود نہیں ہے۔وقتی گذر بسر کے لئے اندازہ سے کوئی دوا مریض کے اطمنان کے لئے لکھ دیتے ہیں۔ بیماریوں کا پھیلاؤ :حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماریاں معاشرے میں بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہیں۔طبی مشاہدات میں یہ بات بھی آئی ہے کہ روز بروز امراض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کسی گھر مین آٹا دال چینی جائے نہ جائے لیکن دوا ضرور جاتی ہے۔ فالج کی طبی وجوہات :طبی لحاظ سے اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔عمومی طورپر فالج تین قسم کا ہوتا ہے۔(1)دائیاں فالج(2)بائیاں فالج(3)ٹانگوں کا فالج۔ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔جیسی اعصابی ۔عضلاتی۔غدی۔ان کے تین ہی علاج تجویز کے لئے جاتے ہیں۔لیکن حدیث مبارکہ میں ایک خاص سبب فالج کو شراب پینے سے جوڑتی ہے، جو بیماری میں رویے کے عوامل کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔ احتیاطی اہمیت: حدیث شراب پینے جیسے محرکات سے بچنے کے ذریعے بیماریوں سے بچاؤ کی ترغیب دیتی ہے۔جولوگ منشیات کے عادی ہیں۔شراب کا مزاج عمومی طورپر گرم ہوتا ہے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔آخر میں فالج کا ظہورا ہوتا ہے بلڈ پریشر ہائی رہنا تو معمول بن چکاہوتا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال: گفتگو صحت اور تندرستی اور صحت مند طرز زندگی پر توجہ دینے کی ترغیب دیتی ہے۔غذا و صحت کی کتنی اہمیت ہے اور نزگی میں اس کا کتنا اہم کردار ہے اس حدیث مبارکہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے بیماریوں کے مقابلہ میں طب کا کردار: حدیث میں سائنسی تحقیق اور بیماریوں کی وجوہات اور ان کے علاج کے طریقے دریافت کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔۔جو کظرات
جنات۔ دیو۔ ڈاکنی۔پری کا علاج
Giant Giant Dakini. Treatment of the layerجنات۔ دیو۔ ڈاکنی۔پری کا علاجعاملین کے لئے شناخت مرض اور مریض کی کیفیات۔اور مرض کے بارہ میں معلومات حاصل کرنا اور تجزیہ کرکے بہتر نتائج اخذ کرنا ضروری ہوتا ہے۔عاملین نے مختلف علامات کو مختلف امراض سے منسوب کیا ہے۔جب ان کے سامنے ان میں سے کوئی جیسے جنات ۔دیو۔پری۔نظر بد۔وغیرہ کچھ سمجھ میں آئے تو اس کے مطابق علاج کرتا ہے۔تشخیص ٹھیک ہوتو علاج درست سمت جاتا ہے ورنہ پریشانیوں اضافہ ہوتا ہے۔
سری پائے کا گوشت۔اور طب نبویﷺ
سری پائے کا گوشت۔اور طب نبویﷺ۔۔The meat of the sari-pai and the Prophet’s medicine سری پائے کا گوشت۔اور طب نبویﷺ۔۔ فالج۔کمر درد۔گردن کا کچھائو۔میں اعلی درجہ کی غذا راقم الحروف۔کی کتاب فالج اور طب نبوی ﷺ آٹھ دس سال پہلے لکھی گئی تھی۔اس پر نظر ثانی کا ارادہ کیا تو یہ مضمون افادہ عامہ کے لئے عام کیا جارہاہے۔سری کے گوشت میں یہ اجزاء پائے جاتے ہیں۔پروٹین/آئرن۔کیلسیم۔زنک فاسفورس۔وٹامنB.۔چولین۔سیلینیم۔کولیجن،اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز۔ان کی موجودگی جہاں غذائی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے وہیں پر بھاری بھرکم ادویات سے بھی خلاصی ہوتی ہے۔فالج کی ایک قسم میں سری پائے کا گوشت بہت فائدہ مند رہتا ہے اس لئے فالج کے شکار لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس سے طبی نبویﷺ کی اہمیت و افادیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔(حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)کھانے پینے کے بارہ میںرسول اللہ ﷺ گوشت میں دست کا گوشت زیادہ مرغوب تھا ۔بخاری الانبیاء۔مسلم کتاب الایمان ۔حضرت ابو عبیدہ وغیرہ نے ضباء بنت زبیر کا واقعہ نقل کیا ہے،انہوں نے اپنے گھر میں ایک بکری ذبح کی آپ ﷺ نے انہیں کہلا بھیجا کہ بکری (کے گوشت)سے ہمیں بھی کچھ کھلانا۔انہوں نے قاصد سے کہا اب تو صرف گردن ہی باقی رہ گئی ہے اور مجھے شرم آتی ہے میں اسے رسول اللہ ﷺکے پاس بھیجوں۔قاصد نے آکر یہ بات کہدیآپ ﷺنے فرمایا جاؤ اور کہدو ۔وہی بھیج دے اس لئے کہ وہ بکری کا اگلا حصہ ہے اور بکری کی گردن کا گوشت خیر کے زیادہ قریب اور اذیت سے دورہوتا ہے(احمد ،نسائی ، طب نبوی( طبی نکتہ آپ ﷺنے فرمایا جاؤ اور کہدو ۔وہی بھیج دے اس لئے کہ وہ بکری کا اگلا حصہ ہے اور بکری کی گردن کا گوشت خیر کے زیادہ قریب اور اذیت سے دورہوتا ہے۔یعنی گردن اور سری کے طبی فوائد بتائے گئے کہ خیر کے زیادہ قریب اوراذیت سے دوسر ہوتا یعنی سری یا گردن کے گوشت میں تکلیف سے نجات کا کوئی طبی راز پایاجاتا ہے۔خیر سے زیادہ قریب ۔اس میں خاص نکتہ قابل توجہ ہے ۔گوشت لمحیات پروٹین کی کمی دور کرنے اور غذایت کی تکمیل کے لئے کھایا جاتا ہے۔یہ گردن کے اکڑائو کو دور کرتاہے۔اورجسم کو کنٹرول والی رگوں کو راحت پہنچتاہے۔مشاہداتی طور پت گردن اور کمر کے اکڑائو کے بہت زیاہ کیسز موصول ہورہے ہیں۔انہیں غذا و خوراک میں سر ی پائے کا گوشت تجویز کیا جاتا ہے جس کے بہترین نےایج سامنے آتے ہیں۔ ابن القیم کے رائےابن القیم لکھتے ہیں بکری کے گوشت کا لطیف حصہ گردن پہلو یا دست کا گوشت ہوتا ہے اس کے کھانے سے معدہ پر گرانی نہیں ہوتی ہضم بھی جلد ہوجاتا ہے اور جس غذا میں یہ تین اوصاف پائے جائیں وہی اعلی درجہ کی غذا ہوتی ہے ۔پہلا وصف یہ کثیر الغذاء ہو اور اعضاء پر پوری طرح اثرا انداز ہو۔دوسرا وصف لطیف ہو معدہ پر گرانی کا سبب نہ بنے۔تیسرا وصف جلد ہضم ہونے والی ہو۔اس قسم کی غذا کا تھوڑا سا حصہ بھی کھالیا جائے تو وہ کثیر مقدار کی (کثیف غذا سے)زیادہ اچھی ہوتی ہے(ذاد المعاد) ہائی پروٹین۔سری پائے کے شوربے میں پروٹین کی اعلیٰ سطح ہوتی ہے جو صحت مند جسم کو سہارا دیتی ہے۔ لہذا، یہ شوربہ اعصاب اور دماغ کو صحت مند رکھنے میں مدد کرے گا. گوشت کے صحت کے فوائد وہی ہیں جن میں پروٹین کی زیادہ مقدار ہوتی ہے اوریہ تو بیماری کے دوران ہڈیوں اور جوڑوں کی بہتر صحت کا ضامن بھی ہے۔اچھے کیلشیم سے بھرپور۔ سری پائے کے شوربے میں کیلشیم کی مقدار بھی پائی جاتی ہے جو ہڈیوں کو صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہڈیوں کی کمی کو پورا کرنے میں اضافہ کرنے اور ہڈیوں کے ٹوٹنے سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔ لہذا، شوربے کو بچوں کی نشوونما کے دوران استعمال کرنے کے لیے ایک بہترین انتخاب ہوگا۔تیزی سے صحت یابی بڑھاتا ہے۔ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ تیزی سے صحت یابی میں مدد کرتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کسی بیماری کا شکار ہیں۔ نزلہ زکام کے لیے چکن نوڈل سوپ کے فوائد کے ساتھ وہی فائدہ، سری پائے سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ ایک اچھے میٹابولزم کے ذریعے، یہ اتنی توانائی لانے میں یہ مدد کرتا ہے۔ جس کی جسم کو روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی بیماری سے تیزی سے صحت یاب ہونے کے لیے کافی توانائی بھی دیتا ہے۔ پٹھوں کو بہتر بنائیں۔ ٹراٹرس کے اندر موجود پروٹین کا مواد پٹھوں کی صحت کو بھی بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔ یہ پٹھوں کی زیادہ مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاکہ جسم کی خراب چربی کو ختم کرنے میں مدد مل سکے اور اچھا کولیسٹرول جسم میں رہے۔ جوڑوں کے درد سے بچیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سری پائے جوڑوں کے درد کے کسی بھی خطرے سے بچنے کے لیے بہترین ڈش ہے۔یہ جوڑوں کے درد کے لیے صحت سے متعلق فوائد سے بھرپور ہوتے ہیں، جو جوڑوں کے درد کو ٹھیک کرنے اور اس کے مضبوطی کا باعث بنتے ہیں۔ہائی امینو ایسڈ۔شوربے میں امائنو ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ جسم کو ڈیٹکسیفائی کے عمل کے لیے بہت اچھا ہے۔ لہذا، یہ قدرتی طور پر آپ کے جسم سے ناپسندیدہ ٹاکسن کو باہر نکالنے میں مدد کر سکتا ہے بکری کے سر کی غذائی اہمیت بکری کا سر، اگرچہ بہت سی ثقافتوں میں عام خوراک کا انتخاب نہیں ہے، لیکن کچھ خطوں میں اسے ایک لذت سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک منفرد ذائقہ اور ساخت پیش کرتا ہے، اور یہ غذا میں غذائیت سے بھرپور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ بکرے کے سر کی غذائیت کے بارے میں دس نکات یہ ہیں:۔پروٹین/آئرن۔کیلسیم۔زنک ۔فاسفورس۔وٹامنB.۔چولین۔سیلینیم۔کولیجن براہ کرم نوٹ کریں:
قرآن کریم کے غذائی اصولوں کا جائزہ
قرآن کریم کے غذائی اصولوں کا جائزہ (غذائی اصولوں پر مبنی بحث تو ہم نے اپنی کتاب۔غذائی چارٹ ۔میں کی ہے۔یہاں پر موقع مناسبت سے (نشد غذائی اصول قران کریم کی روشنی میں بیان کئے جارہے ہیں) قرآن کریم میں غذائی اصولوں کے حوالے سے بہت سی آیت نازل ہوئی ہیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو کھانے پینے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ آج ہم ان میں سے ایک خاص آیت کا تفصیلی جائزہ لیں گے جو کہ سورۃ الاعراف میں موجود ہے۔ آیت کا مفہوم: “اے آدم کی اولاد! تم مسجدوں میں آؤ اور اور خوبصورتی اختیار کرو۔ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو، بیشک وہ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔” (الاعراف: 31) کتب تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے افادہ ناظرین کے لئے حاضر خدمت ہے۔روایت میں آیا ہے کہ ہارون رشید کے پاس ایک عیسائی طبیب حاذق تھا ایک روز اس نے علی بن حسن بن واقد سے کہا تمہاری کتاب میں علم طب کے متعلق کچھ نہیں ہے حالانکہ علم دو ہی ہیں بدن کا علم اور دین کا علم۔ علی نے جواب دیا اللہ نے ساری طب کو آدھی آیت میں جمع کردیا ہے۔ فرمایا ہے (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ) طبیب بولا تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کا کوئی قول طب کے متعلق نہیں آیا۔ علی (رض) نے کہا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ساری طب کو چند الفاظ میں جمع کردیا ہے فرمایا ہے معدہ مرض کا گھر ہے پرہیز ہر علاج کا سر ہے ہر بدن کو وہی چیز دو جس کا تم نے اس کو عادی بنا دیا ہو طبیب بولا تمہاری کتاب اور تمہارے رسول نے تو جالینوس کے لئے طب چھوڑی ہی نہیں۔ تفسیر مظہری مترجم اردو صفحہ نمبر: 991 اس میں تین باتیں ہمیں بتائی گئی ہیں۔ کھاؤ۔پیؤ۔ لیکن فضول اور بے ہودگی مت برتو یعنی ضرورت و موقع کے مطابق جتنا چاہے کھاؤ لیکن جب سیرابی وآسودگی ہوجائے تو ہاتھ کھینچ لو کیونکہ کوئی بھی حد سے بڑھی ہوئی بات اچھی نہیں ہوتی صحت کے لحاظ سے نہ معاشرتی لحاظ سے۔کھانے کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی ہر آدمی کو اس کی ضرورت کے مطابق چھوٹ دی گئی ہے لیکن بلاضرورت اور حاجت کے بغیر کھانا دانتوں سے قبر نکالنے والی بات ہےپیٹ کی ضروت اور اس کی طلب کو بھوک کہتے ہیں اس کا انداز انسان کی اپنی ذات سے بڑھ کر کون کرسکتا ہے۔مسلمانوں پر اللہ رحم فرمائے انہوں نے منزل من اللہ قوانین کو بہت کم اہمیت دی ہے دیگر اقوام قران کریم میں بیان کردہ نکات اور طبی فوائد سے بہرہ مند ہوئیں لیکن انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ اس آیت میں تین اہم باتیں بیان ہوئی ہیں: اسراف سے بچنا: کھانے پینے میں حد سے زیادہ بے پرواہی اور اسراف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اسراف سے بچنے کا حکم قرآن کریم میں اسراف سے بچنے کا حکم مختلف آیتوں میں بار بار آیا ہے۔ اسراف صرف کھانے پینے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اسراف کو ایک بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے اور اسراف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے۔ اسراف سے بچنے کی اہمیت: اسراف کے مختلف پہلو: اسراف سے بچنے کے طریقے: قرآن کریم میں اسراف سے متعلق چند آیات: نتیجہ: اسراف سے بچنا ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسراف سے بچ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔مزید معلومات کے لیے آپ قرآن کریم اور مختلف اسلامی کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں اس آیت سے حاصل ہونے والے غذائی اصول: ہارون الرشید اور عیسائی طبیب کا واقعہ: اس آیت کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں ہارون الرشید کے پاس ایک عیسائی طبیب تھا۔ اس طبیب نے علی بن حسن بن واقد سے کہا کہ تمہاری کتاب میں علم طب کے متعلق کچھ نہیں ہے۔ علی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری طب کو آدھی آیت میں جمع کردیا ہے۔ اس نے قرآن کی آیت “وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا” کا حوالہ دیا۔ جب طبیب نے کہا کہ تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی قول طب کے متعلق نہیں آیا تو علی (رض) نے فرمایا کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ساری طب کو چند الفاظ میں جمع کردیا ہے اور فرمایا ہے کہ معدہ مرض کا گھر ہے اور پرہیز ہر علاج کا سر ہے۔ اس واقعے سے کیا سیکھنے کو ملتا ہے؟ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ غذائی اصول نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی صحت کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ اصولوں پر عمل کر کے ہم ایک صحت مند اور خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔ نتیجہ: قرآن کریم میں بیان کردہ غذائی اصولوں کو اپنی زندگی میں لاگو کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ان اصولوں پر عمل کر کے ہم نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی صحت مند رہ سکتے ہیں۔ نوٹ: یہ صرف ایک آیت کا تفصیلی جائزہ ہے۔ قرآن کریم میں غذائی اصولوں کے حوالے سے بہت سی دیگر آیات بھی موجود ہیں۔ ان آیات کا مطالعہ کر کے ہم مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
جنات کی حاضری حصہ دوم
جنات کی حاضری حصہ دوم جنات کی حاضری ایک خوش کن خیال اور منافع بخش کاروبار ہے۔جس میں عامل و معمول دونوں ہی پیسے کے بل بوتے پر اپنے معاملات طے کرتے ہیںلیکن کم لوگ ہی حاضری جنات کرتے ہیں ۔زیادہ تر اس میدان میں شعبدہ بازی۔فراڈ اور دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہےہم کسی چیز کو اس بنیاد پر جعلی قرار نہیں دے سکتے کہ اس راہ سے بہت سے لوگ فراڈ کرتے ہیں ۔یاد رکھئے فراڈ بھی اسی شکل مین کیا جاتا ہے جب کسی چیز کی حقیقت موجود ہو۔کیونکہ نقل بے کار و فضول چیز کی نہیں کی جاتی بلکہ قیمتی اور مارکیٹ میں چلنے والی چیز کی جاتی ہےاس ویڈیو مین چند اعمال ایسے دئے گئے ہیں جن سے مریضوں پر جنات و موکلات کی حاضری کی جاسکتی ہے۔
شقاق دماغی(Schizophrenia)
شقاق دماغی(Schizophrenia)حکیم المیوات قاریمحمد یونس شاہد میو ایک کثیر الوقع اور لجھا ہوا مرض جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے شیزوفرینیا کے تین مراحل شیزوفرینیا کیا ہے؟شیزوفرینیا ایک نفسیاتی حالت ہے جو آپ کی جسمانی اور ذہنی تندرستی پر شدید اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ آپ کے دماغ کے کام کرنے کے طریقے میں خلل ڈالتا ہے، آپ کے خیالات، یادداشت، حواس اور طرز عمل جیسی چیزوں میں مداخلت کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، آپ اپنی روزمرہ کی زندگی کے بہت سے حصوں میں جدوجہد کر سکتے ہیں۔ غیر علاج شدہ شیزوفرینیا اکثر آپ کے تعلقات میں خلل ڈالتا ہے (پیشہ ورانہ، سماجی، رومانوی اور دوسری صورت میں)۔ یہ آپ کو اپنے خیالات کو منظم کرنے میں دشواری کا باعث بھی بن سکتا ہے، اور آپ ایسے طریقے سے برتاؤ کر سکتے ہیں جو آپ کو چوٹوں یا دیگر بیماریوں کے خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔یعنی دماغ کی یہ حالت تسلی بخش نہیں ہوتی۔ شیزوفرینیا کی اقسام کیا ہیں؟ ماہر نفسیات نے ایک بار مختلف قسم کے شیزوفرینیا کا حوالہ دیا تھا، جیسے پیرانائیڈ شیزوفرینیا اور کیٹاٹونک شیزوفرینیا ۔ لیکن قسمیں شیزوفرینیا کی تشخیص یا علاج میں زیادہ کارآمد نہیں تھیں۔ اس کے بجائے، ماہرین اب شیزوفرینیا کو حالات کے ایک سپیکٹرم کے طور پر دیکھتے ہیں۔شیزوٹائپل پرسنلٹی ڈس آرڈر (جو پرسنلٹی ڈس آرڈر کے زمرے میں بھی آتا ہے )۔ وہم کی خرابیمختصر نفسیاتی عارضہ۔شیزوفرینیفارم ڈس آرڈر ۔شیزوافیکٹیو ڈس آرڈر ۔دیگر شیزوفرینیا سپیکٹرم عوارض (مخصوص یا غیر متعینہ)۔ یہ تشخیص صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کو شیزوفرینیا کے غیر معمولی تغیرات کی تشخیص کرنے کی اجازت دیتی ہے۔یہ کس پر اثر انداز ہوتا ہے؟ مرض لاحق ہونے کی عمومی عمر شیزوفرینیا 15 سے 25 سال کی عمر کے مردوں اور پیدائش کے وقت مرد کو تفویض کیے جانے والے افراد کے درمیان شروع ہوتا ہے (AMAB) اور خواتین کے لیے 25 سے 35 سال کے درمیان اور پیدائش کے وقت خواتین کو تفویض کیے گئے افراد (AFAB) کے درمیان۔ یہ مردوں اور عورتوں کو مساوی تعداد میں بھی متاثر کرتا ہے۔ شیزوفرینیا کے تقریباً 20% نئے کیسز 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کیسز مردوں اور AMAB لوگوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔یعنی یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں انسان ہر ذمہ داریوں کا بوجھ اورجواب دہی کا عمل اور معاشرتی طورپر فرد مکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ب چوں میں اس کی علاماتاس وقت میڈیا تک رسائی اور الیکٹرک تک آلات کا بہم نفسیاتی خلجان کا سبب ہیں۔موبائل اور کمپیوٹر جو بچوں کے ہاتھوں میں وقت گزاری کے لئے تھما دئے جاتے ہیں اس کا سبب بن سکتے ہیں۔بچوں میں شیزوفرینیا نایاب تھا لیکن اب ممکن ہے۔ جب شیزوفرینیا بچپن میں شروع ہوتا ہے، تو یہ عام طور پر زیادہ شدید اور علاج کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شیزوفرینیا کتنا عام ہے؟ شیزوفرینیا ایک عام حالت ہے۔ دنیا بھر میں، یہ ہر 100,000 افراد میں سے 221 کو متاثر کرتا ہے۔ علامات اور وجوہات شیزوفرینیا میں ممکنہ علامات کی ایک رینج شامل ہوتی ہے جیسے وہم فریب، غیر منظم بولنے والی غیر معمولی حرکات۔شیزوفرینیا میں ممکنہ علامات کی ایک وسیع رینج شامل ہو سکتی ہے۔ شیزوفرینیا کی پانچ علامات کیا ہیں؟ شیزوفرینیا والے بہت سے لوگ یہ نہیں پہچان سکتے کہ ان میں شیزوفرینیا کی علامات ہیں۔ لیکن آپ کے آس پاس کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ شیزوفرینیا کی یہ پانچ اہم علامات ہیں۔ وہم :یہ وہ غلط عقائد ہیں جو آپ کے پاس اس وقت بھی ہوتے ہیں جب اس بات کے کافی ثبوت موجود ہوں کہ وہ عقائد غلط ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ جو سوچتے ہیں، کہتے ہیں یا کرتے ہیں اسے کوئی کنٹرول کر رہا ہے۔ہیلوسینیشن :آپ اب بھی سوچتے ہیں کہ آپ ایسی چیزوں کو دیکھ، سن سکتے ہیں، سونگھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں یا چکھ سکتے ہیں جو موجود نہیں ہیں، جیسے کہ آوازیں سننا۔غیر منظم یا غیر منظم بولنا :آپ کو بولنے کے دوران اپنے خیالات کو منظم کرنے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔ یہ موضوع پر رہنے میں دشواری کی طرح لگ سکتا ہے، یا آپ کے خیالات اس قدر گڑبڑ ہو سکتے ہیں کہ لوگ آپ کو سمجھ نہیں سکتے۔غیر منظم یا غیر معمولی حرکات :آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کی توقع سے مختلف حرکت کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ بغیر کسی واضح وجہ کے بہت زیادہ گھوم سکتے ہیں، یا ہو سکتا ہے کہ آپ زیادہ حرکت نہ کریں۔منفی علامات : یہ توقع کے مطابق کام کرنے کی آپ کی صلاحیت میں کمی یا کمی کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ چہرے کے تاثرات بنانا بند کر سکتے ہیں، یا چپٹی، جذباتی آواز سے بات کر سکتے ہیں۔ منفی علامات میں حوصلہ افزائی کی کمی بھی شامل ہے، خاص طور پر جب آپ سماجی بنانا یا ایسی چیزیں کرنا نہیں چاہتے ہیں جن سے آپ عام طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان علامات کی وجہ سے، آپ یہ کر سکتے ہیں: مشکوک، پاگل یا خوف محسوس کریں۔اپنی صفائی اور ظاہری شکل کی پرواہ نہ کریں۔ڈپریشن ، اضطراب اور خودکشی کے خیالات کا تجربہ کریں ۔اپنے علامات کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے الکحل، نیکوٹین، نسخے کی دوائیں یا تفریحی دوائیں استعمال کریں۔ شیزوفرینیا کی کیا وجہ ہے؟ شیزوفرینیا کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ ماہرین کو شبہ ہے کہ شیزوفرینیا مختلف وجوہات سے ہوتا ہے۔ تین اہم وجوہات میں شامل ہیں: کیمیائی سگنلز میں عدم توازن جو آپ کا دماغ سیل ٹو سیل مواصلات کے لیے استعمال کرتا ہے۔پیدائش سے پہلے دماغ کی نشوونما کے مسائل۔آپ کے دماغ کے مختلف علاقوں کے درمیان کنکشن کا نقصان. شیزوفرینیا کے خطرے کے عوامل کیا ہیں؟ اگرچہ شیزوفرینیا کی کوئی تصدیق شدہ وجوہات نہیں ہیں، لیکن اس حالت کے پیدا ہونے کے خطرے کے عوامل ہیں: ماحول :آپ کے آس پاس کی دنیا میں بہت سے عوامل آپ کے شیزوفرینیا ہونے کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ سردیوں کے دوران پیدا ہونے سے آپ کا خطرہ قدرے بڑھ جاتا ہے۔ بعض بیماریاں جو آپ کے دماغ کو متاثر کرتی ہیں، بشمول انفیکشن
جشن میلاد النبیﷺ۔کیا پایا ۔کیا کھویا؟
جشن میلاد النبیﷺ۔کیا پایا ۔کیا کھویا؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو گذشتہ کل پورے ملک میں میلاد النبی کے نام پر طرح طرح کی محافل کا انعقاد کیا گیا ۔جلوس نکالے گئے۔ڈھول ڈھماکے ہوئے ۔سارے دن بازاروں میں آوازے کسے گئے۔بڑوں سے لیکر بچوں تک سب نے اپنے جذابت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کیا۔کچھ باتیں ہیں۔ممکن ہے اسے مخالفت و موافقت کے ترازو میں تولا جائے۔مختلف قسم کی موشگافیاں کی جائیں ۔دلائل کے انبار لگائے جائیں ۔اور استدلال کی ایسی فضا پیدا کردی جائے کہ محسوس ہونے لگے کہ دین اسلام میں سوائے میلاد کے کچھ باقی نہیں ہے۔سر فہرست جو بات سوچنے یا کرنے کی ہے وہ یہ کہ کیا دین اسلام کی تکمیل ہوگئی ہے؟۔۔۔اور یہ اسلام میں مطلوب ہے؟۔۔۔اگر اسلام کی تکمیل اس عمل کے بغیر موجود ہے تو یہ اہتمام ۔حلال و حرام کے فتوے کیا معنی رکھتے ہیں ؟اس وقت کہلائے جانے والے مسلمان۔وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی۔یا ان کی شاخیں۔سب ہی ایک طوفانی لہر کا شکار ہیں البتہ اعمال و افعال کے انداز اپنے اپنے ہیں۔۔۔یہ دین تو نہیں ہے ۔نہ دین کی خدمت ہے۔۔۔البتہ مسلک و فرقہ کی ترویج اور لوگوں کی نفسیاتی تسکین کا سامان ضرور ہے۔۔بریلوی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پاس لوگوں کو متوجہ کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔دیوبندی اسلئے کرتے ہیں کہ لوگ ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ لوگوں کے لئے ایسے پروگرام کئے جائیں تاکہ ہم بھی عشق رسول کی کچھ علامات کا اظہار کرکے دوست احباب یا مخالفین کو بتا سکیں کہ ہم بھی عاشق رسول ہیں۔دین حقہ کا مطلوب معاشرہ۔دین اسلام ایکمکمل دین ہے۔جولوگ اس کی تکمیل کو نہیں مانتے وہ اپنی تسکین کا سامان خود تراشیدہ دلائل کے بل بوتے پر مہیا کرتے ہیں۔جواز میں دور دراز کی کوڑی ملاتے ہیں۔یاد رکھئے دین اپنے احکامات میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں رکھتا جس کے فوی یعنی دنیا میں یا آخرت میں فوائد اثرات مرتب نہ ہوں۔انسانیت کو کسی نہ کسی انداز مین فائدہ نہ ہو۔۔۔اسلام کا ایک رکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو۔کی ادائیگی سب سے پہلے رکن ادا کرنے والے کو فائدہ پہنچتا ہے ۔پھر مخلوق ہو۔اگر کسی کو بھی فائدہ نہ پہنچے تو سمجھو دین نہیں ہے۔تخیلاتی دنیا ہے۔جسے وہ دین سمجھ رہا ہے۔۔گلیوں بازاروں میں جو کچھ ہوتا ہے کیا یہ مچلوب اسلام ہے ۔اسلام کا کونسا رکن پورا کیا جاتا ہے۔آج کی مروجہ علامات اس سے قبل نہ تھیں ۔تو ان لوگوں کے بارہ میں کیا حکم لگائیں گے؟رہی بات دلائل و شواہد اور مناظرہ جات کی تو بھائی ہم نے اسلام کو سمجھا ہی اتنا ہے کہ اپنت مفادات کا تحفظ ہوجائے۔مخالف کو نیچا دکھایا جائے۔مسلک کے کارکنوں کو راضی رکھا جائے۔ضروریات دین کے بجائے اپنی ضروریات کی تکمیل کا سامان بہم پہنچایا جائے۔۔لایعنی قص و حاکایات۔کرامات مجہول قسم کے قصے۔یا من گھڑت روایات کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟۔۔کیا دین اسلام اتنا کمزور ہوچکاہے کہ اسے خوابوں کے ذریعہ تقویت دی جائے؟یاد رکھئے جو کام رسول اللہﷺ نے تلقین فرمائے۔جن کی تکمیل ختم نبوت کہلاتی ہے۔وہ مکمل اور پوری شکل میں بہترین طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں۔کیا ہمیں اس پر اعتماد نہیں ہے؟بہرحال مسلمان جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ اسلام ہر گز نہیں ہے۔اسلام کے نام پے مسلمانوں نے ایک ایسی چیز اپنے پر مسلط کرلی ہے جو مطلوب خدا ہے نہ مقصود دین ہے۔لڑنے مرنے جھگڑے کے لئے ہمہ تن تیار رہنے والے قوم ان تمام روشن ہدایات۔تحمل برد باری ۔سے عاری ہوچکی ہے۔کیا کوئی مسلمان بتا سکتا ہے اس عمل کے نتیجہ میں دین کو کیا تقویت ملی ؟ اور معاشرہ میں کونسے مفید اثرات مرتب ہوئے۔البتہ کچھ مذہبی لوگوں نے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرلیا۔سال بھر آسودگی رہے گی۔یہ علماء نما مخلوق دین اسلام کو چھپاتے اور وہ چیزیں ظاہر کرتے ہیں جن سے دین کی نہیں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔جس قدر میلاد کے نام پر عقش رسول کا اظہار کیا جاتا ہے اگر ایک فیصد بھی سچے دل سے دین کے ساتھ وابسطگی اختیار کرلیں تو ہمارے معاشرہ ۔بدکرداری۔دین بے زاری۔لوٹ مار۔دھوکہ دہی۔ختم ہوکر رہ جائے۔۔۔
حروف صوامت اعمال گرہن شرعی جواز
حروف صوامت اعمال گرہن ۔ شرعی جوازچاند گرہن18 ستمبر2024آغاز۔.۔۔.3 بج کر8 منٹ سہ پہرچاند گرہن شدت:4۔۔۔۔ بج کر 6منٹاختتام:۔۔۔۔ رات 8 بج کر 57 منٹسال2024 کا دوسرا چاند گرہن ۔ ماہ ستمبر میں دوسر جزوی چاند گرہن 18 ستمبر کو ہوگا۔یہ جزوی چاند گرہن یورپ، ایشیا، آسٹریلیا، افریقہ، شمالی/ مغربی شمالی امریکا، شمالی / مشرقی جنوبی امریکا، بحر الکاہل، بحر اوقیانوس، آرکٹک اور انٹارکٹیکا میں نظر آئے گا۔چاند گرہن کا آغاز سہ پہر3 بج کر8منٹ پر ہوگا، 4 بج کر 6 منٹ پر جزوی چاند گرہن دیکھنے میں آئے گا۔ شام 5 بج کر 43 منٹ پر مکمل چاند گرہن ہوگا ، گرہن کااختتام رات 8 بج کر 57 منٹ پرہوگا۔ اعمال حروف صوامت کا گرہن سے تعلق . کچھ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ حروف صوامت اور گرہن کا باہمی کیا تعلق ہے ؟ ان کے امتزاج کے نتیجے میں اثرات کیونکر مرتب ہوتے ہیں اور ان سے انسانی معاملات میں کیسے کام لیاجاتا ہے،بات تو جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر ختم ہوتی ہے کہ انسانی تجربات اور کائناتی قوتوں کے امتزاج سے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں اور صدیوں کے تجربے نے انسان کیلئے نئی راہیں کھولی ہیںپہلے لوگوں کے پاس وقت ہوتا تھامعاشرہ میں ایسا عنصر موجود تھا جو انکے وظائف اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کو دلی طور پر تسلیم کرتا تھا اور انہیں ان کا جائز مقام دیتا تھاوہ لوگ کرامات کے منتظر رہتے تھے ان کی خواہش کے مطابق کرامتیں بھی وجود میں آتی تھیں آج کا مادی دور اس بات کو اہمیت نہیں دیتا اور نہ اسے کرامتوں میں وہ جان دکھائی دیتی ہے نہ کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ مہینوں ایک چیز کے ظہور پزیر ہونے کا منتظر رہ سکے۔ جلد باز طبیعتیں اور عملیات کے نتائج کا ظہور اس لئے تیزرفتار انسان اور جلدی بازطبیعتوں کے لئے کچھ ایسے اعمال کی ضرورت تھی جو گھنٹوں یا منٹوں کے حساب سے کئے جاسکیں ،ان اعمال سے پیدا ہونے والے اثرات بھی گھنٹوں میں سامنے آسکیں،زیادہ پابندیاں بھی نہ ہوں پہلے لوگ ایک قسم کی غذا کھاسکتے تھے انکی قوتیں مضبوط تھیں ان کی صلاحیتوں میں جلا تھی اب ہر طرف تکدر اور غیر شفافی ماحول نے انسان کی وہ سب صلاحیتیں سلب کرلی ہیں مگر حرص پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے،خواہشوں نے نئے طور طریقے اپنا لئے ہیں زندگیاں کم اور وقت سے برکت اڑ گئی ہے مگر عملیات و خوارق عادات باتوں کی طلب پہلے سے کہیںزیادہ توانا حالت میںانگڑایئاں لینے لگی ہے۔ عملیات اوراانسان کی جلد بازی انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سدا سے سرگرداں رہاہے اور کم سے کم وقت میں زیادہ کام کرنے اورلینے کا خواہش مند رہا ہے اس لئے عملیاتی میدان میں بھی اس نے ایسے راستے تلاشے جن سے مہینوں ریاضتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کم سے کم وقت میں برپا کئے جاسکیں اس لئے انہوں نے ایسے عملیا ت اور اوقات کی تلاش جارہی رکھی جو اس خواہش کی تکمیل اورابھرنے والے جذبات کی نمائندگی کرسکے حروف صوامت ایسی ہی خواہش کی تکمیلی صورت ہے جسے ہر کوئی کرسکتا ہے اور ان کے غیر معمولی فوائد سے مستفید ہوسکتا ہے۔ عملیاتی اوقات اور شرعی جواز۔ رہی بات کہ اس کاوش کو شرعی نگاہ سے کیاحیثیت ہوگی ؟ یہ بحث موضوع سے منسلک ہے نہ اس کے بارہ میں کوئی رائے زیر غور ہے مگر اتنا ضرور کہونگا اس میں نہ تو استعانت لغیراللہ ہے اور نہ ہے ایسے منتر و کلام زیر عمل ہے جسے شرک کہا جاسکے البتہ ایک مخصوص طریقہ ضرور ہے جو حروف صوامت کے اظہار کے لئے وضع کیا گیاہےموسمی اثرات دھوپ چھائوں سے مستفید ہونا کائنات میں بکھری ہوئی دیگر طاقتوں سے استفادہ شرک نہیں ہے تو میراخیال ہے اس انداز استفادہ میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے ۔گرہن کی صورت میں پیدا ہونے والے اثرات قابض ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ مواصلاتی خرابی برقی توانائی اور دیگر کائناتی لہروں میں گربڑ سے کیا جاسکتا ہے۔یہ حسابی انداز میںپوراہے اب گرہنوں کے بارہ میں کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔ صدیوں بعد ہونے والے گرہنوں کو حساب دانوں نے معلوم کرلیا ہے اور منٹوں سیکنڈوں کی باریک حسابی فرق تک کو معلوم کیا ہے ایک عامل یا یوں کہہ لیں ایک کائیناتی انداز میں پیداہونے والی قوت سے اگر کوئی فائدہ اٹھاتا ہے تو اس میں کونسی قباحت آتی ہے؟ گرہنوں کا ذکراحادیث مبارکہ میں حدیث پاک میں گرہنوں(کسوف و خسوف۔یعنی سورج و چاند گرہن کو)اللہ کی نشانیاں کہا گیا ہے اور ان اوقات میں نماز پڑھنے اور استغفار کرنے کی تلقین کی گئی ہے،اس سے بڑی اور کیا نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ معمول کے مطابق چلنے والا نظام خلل کا شکار ہوجاتا ہے ۔لازمی بات ہے کائناتی طور پر گرہنوں میں ایسی طاقت پوشیدہ ہے جسے مذہبی لوگوں سے عامل اور سائنسدان بھی پورے شرح صدر کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں،اس کے علاوہ گرہنوں کے اثرات حاملہ عورتوں انڈوں پر بیٹھی مرغیوں اور دیگر حساس معاملات میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ آج کا عامل اور عملیاتی اثرات۔ آج کاعامل ہو یا جادو گر ان نظریات کا حامل ہرگز نہیں ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے ہوا کرتا تھا پہلے عاملین نے اگر کائناتی قوتوں سے استفادہ کیا تھا تو وہ اسے ستاروں کے مدبر الامر مؤثر حقیقی کے انداز میں دیکھتا تھا ،اس کے سامنے اس سے زیادیہ کچھ نہ تھا لیکن آج کے علمی دور میں جب کہ سائنس دانوں نے ان ستاروں کو پامال کردیا ہے ان حوصلہ مند اقدام سے ستاروں کی معبودی حیثیت فناکے گھاٹ اتاردی ہے کوئی بھی اس انداز میںستاروں کی قوت کا کوئی قائل نہیں ہے۔البتہ ان سے خارج ہونے والی شاعوں اور لہروں سے انسان نے جدید اندازمیں مستفید ہونا شروع کردیا ہے۔ گرہن اور شرعی جواز۔ شرائع آسمانی میںجس انداز استفادہ کی نفی کی گئی تھی اس کی حیثیت تبدیل ہوچکی ہے ،جو لوگ انہیں مؤثر حقیقی سمجھتے تھے اب ان کے نظریات میں بھی تغیر ہوچکا ہے ضروری تو نہیں کہ ستاروں کی ساعات میں مخصوص کھڑیوں میں کی گئی بات پوری ہے یہ توحسابی معاملات ہیں جو ان
سوزش سے بچنے والی غذا کیوں
سوزش سے بچنے والی غذا کیوں اور کیسے شروع کی جائے۔آپ جو غذا کھاتے ہیں (اور پرہیز کرتے ہیں) وہ آپ کے جسم کے اندر سوزش کو متاثر کرتے ہیں۔ شفا سے بھرا ہوا کاؤنٹر؛ آپ کے کھانے بشمول سالمن، ایوکاڈو، ادرک، پھل، سبزیاں اور گری دار میوےآپ اپنی انگلی کاٹتے ہیں، اور یہ سرخ اور سوجن ہو جاتی ہے۔ آپ کو اپنے گھٹنے میں چوٹ لگی ہے، اور یہ سوجن اور سوجن ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا، بالکل، آپ کے اندر کے لئے سوزش کا مطلب ہے؟ تھوڑی بہت سوزش شفا یابی میں معاون ہوتی ہے، لیکن جب سوزش دائمی ہوجاتی ہے، تو یہ بیماری کے عمل کو متحرک کرسکتی ہے۔ دائمی سوزش آپ کے دل، دماغ اور دیگر اعضاء کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور یہ کینسر، دل کی بیماری، الزائمر کی بیماری اور ڈپریشن سمیت تقریباً ہر بڑی بیماری میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ رجسٹرڈ غذائی ماہر جولیا زومپانو، RD، LD کہتی ہیں، “جس طرح کسی چوٹ کے بعد سوزش ہوتی ہے، وہی عمل آپ کے جسم میں بھی ہو سکتا ہے۔” “کچھ غذائیں اور صحت کی حالتیں سوزش کا سبب بن سکتی ہیں۔” لیکن جو کھانا ہم کھاتے ہیں – اور نہیں کھاتے ہیں – اس سوزش کو آرام اور روک سکتے ہیں۔ زومپانو سوزش سے بچنے والی غذا کے صحت کے فوائد کے ساتھ ساتھ کہاں سے شروع کریں، کیا کھانا بند کریں اور کیسے بتائیں کہ یہ کام کر رہی ہے۔ اینٹی سوزش والی خوراک کس کو آزمانی چاہیے؟ ہر ایک کے سوزش کے محرکات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کچھ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آپ سوزش کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ زومپانو نے مزید گہرائی تک رسائی حاصل کی۔ دائمی بیماری اگر آپ ایک دائمی صحت کی حالت کے ساتھ رہ رہے ہیں، تو آپ دائمی سوزش کے ساتھ بھی رہ سکتے ہیں۔ سوزش کے ساتھ منسلک حالات میں شامل ہیں: یہ بھی مطالعہ کیجئے غذائی چارٹ کرون کی بیماری۔دل کی بیماری۔ہائی بلڈ پریشر۔خراش پذیر آنتوں کا سنڈروم۔مضاعفِ تصلب۔موٹاپا.چنبل۔تحجر المفاصل۔ٹائپ 1 ذیابیطس۔السری قولون کا ورم۔“ہم کچھ عمومی انجمنوں کے بارے میں جانتے ہیں،” زومپانو کہتے ہیں۔ “بہتر نشاستہ اور پروسس شدہ گوشت دل کی بیماری والے لوگوں کے لیے اچھا نہیں ہے (یا کوئی بھی)؛ گلوٹین اور دودھ آنتوں کے امراض کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔ اور نائٹ شیڈ گٹھیا کے لیے سوزش کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن ہر فرد کو اپنے ذاتی محرکات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کھانے کی حساسیت یہاں تک کہ اگر آپ کو کوئی دائمی حالت نہیں ہے، تو آپ کو سوزش کا تجربہ ہو سکتا ہے جب آپ ایسی غذا کھاتے ہیں جن کے لیے آپ حساس ہوتے ہیں ۔ زومپانو بتاتے ہیں، “جب آپ کو کھانے کے لیے مدافعتی ردعمل ہوتا ہے، تو آپ کے اینٹی باڈیز بڑھ جاتے ہیں، جو سوزش کا سبب بن سکتے ہیں۔” “آپ کا جسم بنیادی طور پر اس خوراک کو ایک غیر ملکی جسم کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔” لیکن کھانے کی چیزیں جو ایک شخص میں سوزش کا باعث بنتی ہیں وہ دوسروں میں اس کا سبب نہیں بن سکتی ہیں – مثال کے طور پر، یہ کہ آپ کبھی کبھار پیزا کا ٹکڑا بغیر کسی مسئلے کے کھا سکتے ہیں، جبکہ ایسا کرنے سے آپ کے دوست میں شدید سوزش ہوتی ہے جس میں گلوٹین کی حساسیت ہے۔ یہ ایک بہترین مثال نہیں ہے، اگرچہ! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اگرچہ آپ کو سوزش کی جسمانی علامت کا تجربہ نہیں ہوسکتا ہے، لیکن تمام پروسیسرڈ فوڈز اندرونی سوزش کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہذا، انہیں کم سے کم رکھیں، چاہے آپ کو کوئی خاص حساسیت نہ ہو۔ اینٹی سوزش والی خوراک کیسے شروع کی جائے | کلیولینڈ کلینک کے ماہر سے پوچھیں۔ آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ اگر آپ سوزش کا سامنا کر رہے ہیں؟یہ ایک مشکل ہے! ہو سکتا ہے آپ کو یہ احساس بھی نہ ہو کہ آپ اپنے جسم کے اندر اس قسم کی چھپی ہوئی سوزش کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ کچھ جسمانی علامات آپ کو اس کی طرف اشارہ کر سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’آپ کو لالی، سوجن، جلد پر خارش، ہاتھوں اور پیروں میں سوجن ہو سکتی ہے۔ “جب آپ کی پتلون آپ کی کمر کے گرد تنگ محسوس ہوتی ہے تو آپ پیٹ کی کشادگی کا بھی تجربہ کر سکتے ہیں۔” دیگر اشارے میں تھکاوٹ، وزن میں اضافہ، جوڑوں اور پٹھوں میں درد، سر درد اور معدے کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔ آپ کو نزلہ زکام اور فلو ہونے کا زیادہ خطرہ بھی ہو سکتا ہے، اور جب آپ انہیں لگ جاتے ہیں، تو وہ ہفتوں تک رہ سکتے ہیں۔ اینٹی سوزش والی غذا کیسے شروع کی جائے۔ آپ جو کھانے کھاتے ہیں (اور جن سے آپ پرہیز کرتے ہیں) آپ کے جسم کے اشتعال انگیز ردعمل کو ختم کرکے سوجن کو سکون بخشنے اور یہاں تک کہ سوزش کو روکنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہر ایک کے سوزش کے محرکات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کوئی ایک سائز کے فٹ ہونے والی تمام اینٹی سوزش والی خوراک نہیں ہے۔ زومپانو کا کہنا ہے کہ “اصطلاح ‘اینٹی انفلیمیٹری ڈائیٹ’ کسی مخصوص غذا کے طریقہ کار سے نہیں بلکہ کھانے کے مجموعی انداز کا حوالہ دیتی ہے۔” لیکن کچھ ایسے رہنما اصول ہیں جن پر عمل کرنے کے لیے اس طریقے سے کھانا کھایا جائے جس سے سوزش کے امکانات کم ہو جائیں۔ سوزش کو کم کرنے کی پہلی کلید ان کھانوں کو کاٹنا ہے جو اس کا سبب بنتے ہیں۔ زومپانو کا کہنا ہے کہ “ایک سوزش مخالف غذا وہ ہے جس میں کم سے کم پروسس شدہ کھانے شامل ہوں۔” “اس کا عام طور پر مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ایسی چیز سے دور رہنا جو باکس یا بیگ میں آتی ہے، یا کسی بھی ایسی چیز سے دور رہنا جس میں اجزاء کی لانڈری کی فہرست ہوتی ہے – خاص طور پر اگر وہ چینی، نمک یا پراسیس شدہ تیل سے شروع ہو اور اس میں ایسے اجزاء شامل ہوں جنہیں آپ نہیں پہچانتے
گھروں میں جنات کے ٹھکانے اور ان کا علاج۔
گھروں میںجنات کے ٹھکانے اور ان کا علاج۔اس وقت ہر گھر مین پریشانی ڈیرے جمائے ہوئے ہے۔آمدن ہے برکت نہیں ہے۔نرم بستر ہیں لیکن سکون نہیں ہے۔گھروں سے پیسے چوری ہوجاتے ہیں۔غیر معمولی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔خون کے چھینٹے آتے ہیں ۔آوازیں سنائی دیتی ہیں۔یہ وہ کیسز ہیں دن رات جو سامنے آتے ہیں لوگ اپنی دکھ بھری کہانی سناتے ہیں۔ یہ بھی پڑھئے جنات کیا کھاتے ہیں؟ قرب قیمات جنات کی بہتات ہوگی۔اور ان کا غیر معمولی ظہور سامنے ہوتا رہے گا/اور انسانی دنیا میں ان کا دخل بہت زیادہ ہوجائے گا۔انسانوں پر مسلط شدہ جنات دو قسم کے ہوتے ہیں/ایک جو قدرتی طورپر کسی غلطی یا خطا کا نتیجہ ہوتے ہیں۔دوسرے وہ جنہیں عامل جادو گر اور مخفیعلوم کے ماہرین کسی پر مسلط کرتے ہیں۔سعد طبیہ کالج //سعد ورچوئل سکلز کی طرف سے جاری اسباق مین عاملین کی بہتر تربیت کے لئے یہ اسباق پڑھائے جاتے ہیں ۔گھروں میں لیٹرین اور اس سے منسلک اشیاء میں جنات کو خاص دلچسپی ہوتی ہے۔واشروم ان کی آماگاہیں اور پناگاہیں ہوتی ہیں۔