ٹانڈ۔چُولھی اور تندور(میواتی ثقافت)
ٹانڈ۔چُولھی اور تندور(میواتی ثقافت)
حکیم المیوات قاری محمدیونس شاہد میو
میواتی ثقافت کی بے شمار نشانی یامارے ختم ہوگئی ہاں کہ
ہم ان کی قدر نہ کرسکا۔ان گِنت بات بھول گی کہ یاد نا راکھ سکا
میواتی زبان میں بہت وسعت ہے
ای اپنی ضرورت کا الفاظ اور اشارہ و کنایہ راکھے ہی۔
کدی ایسی نہ سُنی کی میو کائی چیز کا نام نہ ہونا کی وجہ سو
کائی بات میں مافی الضمیر کو اظہار کرن سو چھیانو رہا ہوواں۔
میون کو دماغ کام کرن میں خود کفیل ہو
کائی بھی چیز کا اظہار کے مارے الفاظ ڈھونڈنو
کوئی بڑی بات نہ ہی۔
جب انن نے ہوائی جہاز دیکھو ہوتو اپنا مغز سو اُنن نے
جہاز کو چیل گاڑھی کو نام دئیو ہو۔
لیکن یہ چیز روز مرہ کا معمولات میں شامل ہی
یامارے ان کا مہیں کائی کو دھیان ای نہ جاوے ہو
آج بہت سا لفظن نے خود میو بھی بھول چکا ہاں
حالانکہ یہ الفاظ دودھ پیتا بالکن کی زبانن پے بھی چڑھا ہویا ہا۔
بولن میں سنن میں اچنبا کی بات نہ سمجھی جاوے ہی
جیسے۔آلوؔ۔آلیؔ(یعنی بھینت میں چھوڑا گیا سوراخ/جگہ)
جنن نے کام میں لاوے ہا، کوئی چیز دَھر دیوے ہا۔
یہ ایک الماری کو سو کام دیوے ہا۔
یائی طریقہ سو چوُلھیؔ۔یعنی گھر میں ایسی جگہ جن پے
چھت گیر کے اوپر کو حصہ دوسرا کام میں لئیو جاتو ہوئے
چولھیؔ۔بطور سٹور کے استعمال کری جاوے ہی۔
استعمال کی ایسی چیز جن کی فی الوقت ضرورت نہ رہوے ہی
چولھیؔ میں دھر دی جاوے ہی۔
عمومی طورپے چولھیؔ،ناج کی کوٹھیؔ۔پانی کی پلہنڈیؔ۔
کے نیچے بنائی جاوے ہی۔
چولھیؔ میں استعمال شدہ چیز کے علاوہ بھی بہت کچھ دَھرو جاسکے ہو
اب نوں سمجھو کہ آلیؔ میں دِیوا دھرو جاسکے ہو
آلہؔ میں زیادہ گنجائش ہونا کی وجہ سو گھنو سامان دَھرو جاسکے ہو
بھانڈؔ ٹینڈا، برتنن کے مارے ٹانڈ ؔبنائی جاوے ہی
ٹانڈؔ،پے میونی لتا بچھاوے ہی، جو کچھ اُوپر رہوے ہو
اور کچھ نیچے لٹکے ہو۔واپے بڑی محنت سو پھول بوٹا بنایا جاوے ہا
ایسا لتان سو “لیسؔ: کہوے ہا۔
تندورؔ۔ میونی خود بناوے ہی۔
ای ہنر ماں ہا بڑی بوڈھین سو نئی نسل میں منتقل ہووے ہو
کئی میونی ایک دم میں کئی کئی ےندور شروع کری راکھی ہے
ایک دو ن نے اپنی لوڈ کے مارے راکھے ہی
جب کہ دوسرا تندور تحفہ(بھینٹ)کائی دیوے ہی
یا پھر بیچے (فروخت)بھی کرے ہی
سلائی کڑھائی کو ہنر۔ میون میں قدر کی نگا سو دیکھو جاوے ہو۔
جب رشتہ ناطہ طے کرا جاوے ہا تو سبن سو بڑی خوبی
کڑھائیؔ /سلائی/ؔچاکھیؔ چولہاؔ کو کام/گوبر مانٹی کو کام
اور دیکھ کے قران مجید پڑھنو تو بہت ہی بڑی صفت سمجھی جاوے ہی
بطور خوبی قران کا پڑھنا اے گنواوے ہا۔
برادری میں یابات کو چرچو رہوے کہ
فلاں کی بہو بیٹی قران پڑھی ہے۔