مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت کے آخری لمحات
مجدد تبلیغ مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ
میانہ قد، نحیف و نزار جسم، مگر نہایت چاق و چوبند، رنگ گندمی، ڈاڑھی گھنی، صورت سے تفکر ، چہرہ سے ریاضت و مجاہدہ،پیشانی سے عالمی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت لیکن آواز میں قوت اور جوش، مسلمانوں کی دینی و ایمانی پسماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں بار بار پستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دین کی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا۔ ان شمائل و خصائص اور عادات و صفات کو اپنے ذہن میں تربیت دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے، اُس پر لکھ دیں: مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔۔۔
مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کی شخصیت، اُن کے صفات و کمالات، ان کی عزم و ہمت، دینی تڑپ و فکر اُمت اور زہد و تقوی کا صحیح معنی میں اندازہ تو اُنہیں لوگوں کو ہوگا جنہوں نے اس آفتاب علم و حکمت کو دیکھا ہوگا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہوگا، تا ہم جن حضرات نے ان کی زبان سے جھڑنے والے علم و حکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا رحمہ اللہ کے علم و عمل اور اصلاح امت کے جس جذبے نے آج پوری دنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اللہ، رسول، دین و مذہب اور قرآن و سنت سے وابستہ کیا اور جن کا اخلاص و لگن اور کڑھن و فکر دنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کو مولانا کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ’’مجدد‘‘ بنایا تھا۔
مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت کے آخری لمحات
از
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
زندگی کے آخری ایام بڑی نقاہت اور سخت بیماری میں گزارے تھے۔یہ ایسی حالت ہوتی ہے جس میں شریعت مطاہرہ بھی رخصت دیدیتی،اور احکام شریعت کی ادائی گی میں نرمی مل جاتی ہے ۔لیکن یہ عزیت و استقلال کا پہاڑ عزیت پر گامزن تھا۔
نماز وغیرہ کے لئے دو خادم آپ کو بستر سے اٹھاتے اور وہی بستر پر لٹاتے لیکن بعض اوقات آپ خود بیٹھ بھی نہیں سکتے لیکن اس حالت میں بھی سنن و نوافل تو بیٹھ
کر پڑھتے مگر فرض نماز جماعت کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی ادا فرماتے تھے، حالانکہ نماز ختم کر چکنے کے بعد خود اٹھنے کے قابل نہ ہوتے اور خادم ہی کمر اور بازوؤں میں ہاتھ ڈال کر اٹھاتے اور حجرے میں لے جاکر لٹا دیتے لیکن دعوت الی اللہ اور سعی و تبلیغ و اصلاح کا آپ کو جوجنون نماسودا ہے اس کا جوش و ولولہ اس نازک حالت میں ہمیشہ سے زیادہ دیکھا ،تنہا ہیں اور خاموش لیٹے ہیں تو اسی سوچ و بچار میں ہیں اور اگر کوئی پاس بیٹھا ہے تو دل کے پورے درد اور سینے کی پوری قوت کے ساتھ اس سلسلے میں اس سے مصروف خطاب ہیں ۔۔
اور پھر جب ان کو علالت اور بیماری کا احساس دلاکر اس سے باز رکھا جاتا تو فرماتے ( دیکھئے۔الفرقان)دعوت الی اللہ دین کی عمومی تعلیم و تربیت اور تبلیغ اصلاح کے جن نبوی طریق کے زندہ کرنے اور رواج دینے میں لگا ہوا ہوں، زندگی کے خطرے کی وجہ سے ان کے کاموں کو نہ کرنا میں کسی حال میں اپنے لیے جائز نہیں سمجھتا کیونکہ نماز میں قیام کی فرضیت کا علم و احساس تو امت میں عام طور سے الحمدللہ باقی ہے لیکن دعوت الی اللہ اور تبلیغ اسلام کی کوشش کے بعد فریضہ کو عام طور پر بھلا دیا گیا ہے حالانکہ یہ وہ فریضہ ہے کہ دین کے باقی تمام فرائض اور کیا شعائر کا قیام و بقا اسی پر موقوف ہے،اس لیے اس بارے میں میں اپنے لئے کوئی رخصت نہیں سمجھتا ۔
ہاں اگر ایک معتدبہ تعداد اس فریضہ کی واقعی اہمیت کا احساس کماحقہٗ کرنے لگے تو پھر میرے لیے بھی اس میں رخصت ہو جائے گی لیکن جب تک ایسی ایک جماعت پیدا نہیں ہو جاتی جو اس کا کام کی اہمیت کا پورا احساس اور اندازہ کرکے اس کے تقاضے کے لئے تیار ہو اس وقت تک میرے لیے جائز نہیں کہ خوف جان میں اس کام کو چھوڑ دو یا ملتوی کر دوں۔
مولانا محمد الیاس کا 21رجب 1363ھ/13 جولائی 1944ءبروز جمعرات صبح صادق کے وقت انتقال ہوا، اس داعی الی اللہ کے وصال پر مولانا منظور نعمانی لکھتے ہیں۔(الفرقان بریلی)
اللہ کا وہ مخلص بندہ جوبیسویں برس سے اللہ کے راستے کی طرف دل کے پورے درد کے ساتھ دنیا کو بلارہا تھا۔چیخ رہا تھا، اور پکار رہا تھا۔بالخصوص آخری علالت میں گذشتہ چار پانچ مہینے سے تو جبکہ ہڈیوں میں شایدمغز بھی نہیں رہا تھا اس کی یہ دعوت اور چیخ و پکار اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی اور آخری ایام میں تو اس کا سارا وجود درد و دعوت ہی بن کر رہ گیا تھا۔ تاریخ۔11بروزپنجشبہ صبح صادق کے وقت اس دنیا سے رحلت کر کے اپنے اس مالک اورمولا کے پاس پہنچ گیا جس کی رضا کے راستے کی طرف دنیا بھر کو بلاتا تھا۔۔
نعمانی صاحب ایک اور موقع پر لکھتے ہیں۔(الفرقان شعبان)
حضرت مولانا کے وصال سے بظاہر تو اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا کہ کروڑوں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان یا ہزاروں عالموںاور بزرگوں میں سے ایک بزرگ عالم اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔یہ سب کچھ اس دنیا میں روز ہی ہوتا رہتا ہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جن کا اکیلا وجود لاکھوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور وہ پتھروں کی کان میں لعل اور ہیرے ہوتے ہیں، بے شک حضرت رحمتہ اللہ علیہ بھی انہی رجال عظام میں سے تھے اور ایسوں کی موت و حیات روحانی دنیا میں بڑا تغیراورانقلاب عظیم ہے۔
آہ !جنہوں نے نہیں جانا ان کو کس طرح بتایا جائے اور کیسے باور کرایا جائے کہ کتنی بڑی چیز کھو گئی ہے
انچہ از من گم شدہ گراز سلیماں گم شدے۔
ہم سلیماں ،ہم پری، ہم اہرمن نگر بستے۔
مولانا محمد الیاس کی دعوت کی کامیابی کے متعلق علامہ سلیمان ندوی مرحوم لکھتے ہیں ( دیکھئے یادرفتگان از علامہ سلیمان ندوی صفحہ 314)حضرت مولانا محمد الیاس
نہایت خاموشی کے ساتھ صرف اپنے مخلصانہ سادہ طریقہ اور صحیح اصول دعوت کے ذریعے 25 برس کی انتھک محنت میں ان( میواتیوں )کو خالص و مخلص مسلمانوں کی صورت میں بدل دیا ،جن کے ظاہر و باطن پر خاندان مسلمانوں کو بھی رشک آتا ہے ،۔
اس کی وضاحت مولانا ابوالحسن علی ندوی سے سنیئے (مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت صفحہ 103)
1 Comment
thanks visit my sites