قران کریم اور قانون شفاٗ
بغیر دوائوں کے علاج
حکیم المیوات قاری محمدیونس شاہدمیو
قران کریم منبع شفاٗ و صحت ہے جب تک کسی چیز کے اصول بیان نہ ہوں کچھ بھی کہنا تخمینہ ہوسکتا ہے قانون نہیں۔قران کریم کا مطالعہ کرنے سے کچھ بہت سی آیات میں طبی اصول موجود پائے گئے ہیں ۔ہر کسی کا اپنا نکتہ نگاہ ہوتا ہے۔اپنے علم و ہنر کے مطابق رہنمائی لیتا ہے۔قران کریم کسی خاص نکتہ نظر کا پابند نہیں ہے۔اس خزائن علوم بھرے ہوئے ہیں ۔حقائق کا سمندر ٹھاٹھیں مار ہا ہے۔شناوری کرکے مطلوبہ جواہر نکالے جاسکتے ہیں۔
قران کریم نے سب سے پہلا دعوی یہ کیا ہے کہ:ذالک الکتاب لاریب فیہ۔۔اس کتاب کی حقانیت میں کوئی شک نہیں ہے۔۔ہدی اللمتقین۔پرہیزگاروں کے لئے بہتری راہ عمل ہے۔۔یہ قران کریم کی پہلی ٓیت کا خلاصہ ہے۔مفسرین و محدثین متفق اللسان ہیں کہ بہترین تفسیر تفسیر بالقران کے یعنی جب قران اپنے مطالب کو بیان کرنے میں کسی دوسرے واسطے کے لئے تشنہ نہ چھوڑے تو یہ بہترین تفسیر ہوگی۔ رہنمائی ہے متقین کے لئے ،یہ متقی کون لوگ ہیں ؟۔۔اسی سورت میں آگے چل کر بتادیا( یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَی الَّذینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (آیه ۱۸۳ سوره بقره)۔کہ روزے تم پر پہلے لوگوں کی طرح ضروری قرار دئے گئے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔۔غور کیجئے متقی بننے کے لئے روزہ ضروری قرار دیا گیا ہے یعبی خالی پیٹ۔رہنا ضروری قرار دیا گیاہے
کھائو ضرور لیکن بقدر ضرورت و حاجت۔خوامخواہ بکری کی طرح منہ چلاتے مت پھرو۔
علمی طورپر اسوہ رسول اکرمﷺ زندگی کے لئے مشعل راہ ہے۔ایک حدیث ملاحطہ ہو۔۔پیٹ کے تین حصے کرو ایک کھانے کے لئے ایک پانی کے لئے ایک سانس کے لئے۔۔
جریر نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور دو آدمیوں کا کھانا چا ر کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔(صحيح مسلم كِتَاب الْأَشْرِبَةِ)
۔۔دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ انسان کے لئے وہ لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو دوہرا اہونے سے بچا سکیں۔جب پرہیز گاری ٓتی ہے تو بیماری بھاگ جاتی ہے۔۔بغیر ضرورت کے کھانا مت کھائو،پیٹ بھرے لوگ ہدایت والوں سے کم ہی تعلق رکھتے ہیں۔اس پرہیز گاری کے قانو کی تکمیل اس آیت مبارکہ میں کردی گئی ہے۔ان اللہ لایحب المفسرفین۔اللہ مسرفین یعنی فضول قسم کے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
ایک اصول بیادیا کہ کھانے سے پہلے پرہیز۔اس کے بعد روٹی کی باری ہے۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ جب روٹی ملے گی نہیں تو پرہیز ہی پرہیز ہوگا۔۔۔یہ ایک مغالطہ ہے کس نے منر کیا ہے ک خوراک و غذا سے منع کئے گئے ہو؟ایسا ہرگز نہیں،رزق سے وسیع و عریض آسمان بھرا پڑا ہے ۔سورہ الزاریات میں ہے وفی السماٗ رزقکم وماتوعدون
کہ جس رزق کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمان میں ہے۔لیکن قدرت ایزدی ہے کہ اس کے سوتے زمین سے پھوٹتےہیں۔۔ رزق روزی باغات۔انہار و سمندر سب اسی زمین میں تو ہیں لیکن بنانے والا بتاتاہے کہ اس کے خزائن آسمان میں۔(وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) سطح الذہن لوگ سوچتے ہیں جب اللہ نے رزق دیا ہے تو کھانے میں کیا حرج ہے ؟ہم نے کب کہا ہے کہ کوئیحرج کی بات ہے ؟ہم تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں اتنا کھائو جتنی ضرورت ہے۔۔تاکہ صحت مند جسم برقرار رہے اگر صحت و تندرستی ہی نہ رہی تو کتنے بھی اسباب و وسائل ہوں بے کار ہیں ۔جب وہ کھانہیں سکتا تو اس کے لئے مرغ و مسلم اور مٹی برابر ہیں کیونکہ دونوں کو استعال میں نہیں لاسکتا۔
قران کریم انسانوں کے لئے سہل ممتنع انداز میں زندگی کے اصول بیان کرتا ہے۔یہ تو ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کبھی مانپی نہیں جاسکتی۔اگر حکماٗ حجرات ان اصولوں کو اپنی زندگیوں میں رائج کرلیں تو بہت ساری جھنجٹوں سے آزادی مل جائے۔عہد نبویﷺ میں طب نبوی کے دو اہم ماخذ تھے۔قرآن و حدیث۔ان میں ایسے حقایق ہیں جو اسرار خفیہ و ظاہریہ اور قوانین قدرت اور فطرت کے عین مطابق ہیں،جو ہر سود میںاہل علم کے عمق دفکر کی بنیاد پر ٓشجارا ہوتے رہیں ۔
حضر ت دوست محمد صابر ملتانی علیہ الرحمہ کا قول ہے:۔جو علم و سائنس قران و احادیث شریفہ سے باہر ہو وہ نہ علم ہے نہ سائنس(کلیات ملتانی پیش لفظ)
جہاں زندگی کا ذکر آیا ہے وہیں پر پرہیز کا بھی تذکرہ موجود ہے۔قران کریم نے کچھ چیزیں وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں کچھ کچھ اشیاٗ کے لئے قوانین مرتب فرمادئے ہیں۔انسانیت کی معراج حد اعتدال کی پاسداری ہے کہ( وكذلك جعلناكم امة وسطا)زبدگی میں میانہ روی اختیار کرنا صحت کا معاملہ تو بہت حساس ہوتا ہے معمولی کوتاہی خلل کا سبب بن سکتی ہے۔اسی سورہ بقعہ میں میں ٓگے چل کر کھانے پینے کے قوانین بیان ہوئے ہیں کلوا من طیبات ما رزقناکم ۔ کہ پاکیزہ چیزیں کھائو۔شکر کرو کہ مقام شکر ہے کہ تمہاعری غذا و خواک پاکیزہ بنائی گئی ہے ورنہ کتنی مخلوقات ایسی ہیں ان کی خوراک دیکھ کر کراہت آنے لگتی ہے
صحٹ کا راز اعتدال میں ہے جب تک اعتدال برقرا رہے صحت برقرا ررہتی ہے۔
قران کریممیں جتنی مرتبی تقوی و طہارت کا ذکر آیا ہے وہ حدا اعتدال پر گامزن رہنے کے لئے تاکیدی حکم ہے۔پرہیز کا تصور خوامخواہ کی جکڑ بندی نہیں ہے اس کے پیچھے بہت بڑا راز ہے ۔نہ ہی پرہیز ان معنوں میں ہے کہ ہر چیز سے روک لگا دی جائے ایسا ہرگز نہیں بلکہ ایک راہ اعتدال ہے چس پر چلنا صحت کی طوالت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔جن چیزوں سے دائمی پرہیز بتادیا گیا ہے وہ انسانی صحت کے لئے مضر ہیں۔جیس ایک انسان معدہ کا مریض ہے ۔تبخیر و گیس سے اس کا برا حٓل ہورہا ہے۔لیکن وہ غذا میں وقفہ نہیں کررہا ۔ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ باوجو د چاہتے کے کھا نہ سکے گا۔
پرہیز گار لوگ مطیع ہوتے ہیں ۔ان کے لئے اطاعت سرمایہ ہوتی ہے ،جب کسی چیز کو پرکھ لیں۔کسی چیز پر یقین کرلیں پھر اس پر کار بند رہے ہیں۔اگر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیا ت کا بغور مطالعہ کریؓ تو زندگی کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے۔۔
کسی بھی چیز کی کچھ علامات و نشانیا ں ہوتی ہیں معمین کی نشانیاں بتائی گئی ہیںوہ ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں جنہیں وہ دیکھ نہیں سکے۔لیکن باوثوق ذرایع سے معمول ہوا کہ یہ باتیں اصول صحت کی کسوڑی پر پوری ہیں۔
قوانین فطرت کبھی نہیں بدلتے ۔ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔
کائنات اصول پر قائم ہے اس کے اندر فطری قوانین جاری ہیں۔کوئی چیز اپنے مقام سے حرکت تک نہیں کرتی البتہ وہ قوانین کی پابندی کرتی ہے۔۔
(وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلاَ تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (61)
۔اس لئے بتادیا گیا کہ تمہیں ایمان دار رہنے کے لئے ان قوانین کی پابندی کرنی پڑے گی جو پہلے بھی نافذالعمل تھے آج اسی طرح حقویقت ہیں ان میں کوئی تبدیلی یا بدلائو نہیں ہوسکتا ۔ولن رجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ یعنی جو چیز صدیوں پہلے لوگوں کے لئے شفاٗ تھی آج بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔(ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)
یہ آیات قدرت کے آفاقی اصولوں کی تشریح کررہی ہیں۔
کسی بھی بات کا اثر اس کے سچ یا جھوٹ پر مبنی ہونے کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔بتابے والا سچ بتائے سننے والے کو یقین ہوجائے گہ جو بتایا جارہا ہے سچ ہے تو وہ بات دلوں کی گہرائیوں کو چھوتی ہے۔۔قران کریم کتاب فطرت ہے ۔فطرت کبھی بدلا نہیں کرتی۔نہ کبھی ان قوانین میں بدلائو ہوسکتا ہے نہ کسی نے اس کا نظارہ کیا ہے ۔آگ جلاتی ہے۔پانی میں تھنڈک ہے۔ہماری زندگی کا سبب آکسیجن و پانی غزا ہے۔لیکن یہ قانون ہمارے لئے ہے ۔کچھ مخلوقات نے پیدائش سے لیکر زندگی کے مراحل کے اختتام تک ان چیزوں کو محسوس تک نہیں کیا۔اور وہ زندگی گزار کے اپنا دوران حیات مکمل کرکے نابود ہوگئے۔
ایمان لانے والوں کے لئے کسی امتیازی قانون کی ضرورت نہیں اسے مزانہ ماضی میں لاگو قوانین بتائے جائیں یا حال میں جاری ۔یا پھر وہ جو آنے والے وقت میں رونما ہوسکتے ہیں۔۔اس لئے ایمان والے دیکھی اور ان دیکھی تمام باتوں کو مانتے ہیں لیکن اطلاع دینے والے ذرائع معتبر ہونے چاہئیں۔
ان دیکھی چیزوں کو مانتے اور نماز قائم کرتے ہیں قیام نماز کو معروف طریقہ ہے،معا رزق میں سے خرچ کرنے کی تاکید موجود ہے۔عمومی طورپر رزق کا لفظ کھانے پینے کی اشیاٗ پر بولا جاتا ہے۔گوکہ رزق وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔۔جو لوگ ایمان بھی لائے۔نماز بھی پڑھی۔عطاٗ کردہ رزق میں سے بھی مستحقین کو دیا۔ان کے بارہ میں نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ فلاح و فوز سے ہم کنار ہونگے۔یعنی اپنی رب کی طرف سے ہدایت اور کامیابی ملے گی۔اگر ہم آخرت پر ایمان کو بھی ساتھ ملالیں تو تفہیم میں آسانی پیدا ہوگی،یعنی مآل ایک دن مرنا ہے جو لوگ حد اعتدال کے پابند ہونگے ان کی زندگی صحت سے بھرپور ہوگی اور انہیں ٓخرت میں بھی راحت ملے گی۔
جو لوگ ان قوانین کی پروا نہیں کرتے ان کا نتیجہ و مآل دکھ اور تکلیف ہوگا۔یعنی بد پعہیزی تکلیف کا سبب ہے بنتی ہے ۔اسے ایمان و یقین کی حدود میں مقید کردیں یا پھر اسے وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہوئے پورے نظام حیات پر محیط سمجھ لیں۔کھانے پینے اور معاشرت میں اقتصادی معاملات راحت کا سبب بنتے ہیں۔جیسے ایمان کے نام پر کسی بھی چیز میں مباغہ آرائی پسندیدہ عمل نہیں ہے اسی طرح صحت جسمانی کے لئے مبالغہ آرائی مناسب نہیں۔
مذہنی اعمال میں بے اعتدالی آخرت میں تکلیف(عذاب) کا سبب ہے تو جسمانی و غذائی بے اعتدالی بھی تکلیف (بیماری)کا سبب بنتی ہے۔مزہ داری کی بات یہ ہے کہ دونوں کا انجام عذاب یعنی بخار ہوتا ہے۔بخار اتنا ہی ہوتا ہے جتنا فاضل جسم میں موجود ہو۔جیسے ہی فاضل مواد ختم ہوتا ہے بخار بھی اتر جاتا ہے اور دینی روایت کے مطابق انسان عذاب سے بھی چھٹکارا پالیتا ہے
ممکن ہے کچھ لوگ نہ سمجھ سکیں۔تفہیم کی غرض سے ا ن آیات مقدسہ کی تلاوت مناسب رہے گی،جہاں مقتداٗ و پیشوا لوگوں کی غفلت و لاپرواہی اور قوانین سے روگردانی کو تکلیف دہ عمل قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ حق کسی لباس و وضع قطع کا محتاج نہیں ہوتا۔لیکن عمومی طورپر اسے خاص لباس و طرز زندگی میں مقید سمجھ لیا گیا ہے،جیسے مذہنی لباس پہننے والے کو تقدس کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔سورہ توبہ میں اس کی وضاحت موجود ہے
(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (31)التوبہ
سلسلہ مضمون جاری ہے