
ایک عید ہی تو ہے۔
عید مبارک
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
چاروں طرف خوشیوں کا سما ہے ۔ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق نئے اُلے دھلے کپڑے پہنے گھوم رہا ہے ۔ کسی نے دوسروں کو عید مبارک کہنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا ہوا ہے تو کوئی کسی کے گلے مل رہا ہے۔کوئی اپنے قربانی کے جانور کو گھوما رہا ہے۔کسی تن پر کپڑے تو زیادہ قیمتی نہیں لیکن مسکراہٹیں بکھیری ہوئی ہیں ۔ کوئی قیمتی لباس زیب تن ہے لیکن ہجوم افکار نے اس کی ہوائیاں اڑائی ہوئی ہیں۔کچھ بچے جانوروں کی نکیل پکڑے کلکاریاں مارہے ہیں ۔تو کچھ کے کپڑے خون میں

لٹ پت ہیں۔
یہ ایک عید ہی تو ہے
کچھ اپنے یوں بچھڑے کہ عید کی خوشیاں اور جانوروں کی قربانیاں اور انسانی ہجوم بھی ان کے افکار و غم کو کم نہ کرسکے۔
کچھ سال پہلے کچھ لوگوں کے ساتھ عیدیں خوشیاں لیکر آتی تھی ۔اب وہ لوگ نہیں رہے ۔جن کے ساتھ عید ہوتی تھی ،کچھ وہ لوگ دور ہوگئے جن کے لئے عید ہوا کرتی تھی۔
ایام رفتہ کی ودڑ مین کچھ دھندلکے روح کو مضطرب کئے ہوئے ہوئے ہیں ۔

عید ہی تو ہے
کبھی عید کی خوشیاں چند پیسے لیکر والدین کے سامنے ضد کرکے وصول کی گئی عیدی معنی رکھتی تھی۔معمولی سے نئے کپڑوں میں دنیا بھر کی خوشیاں سمٹی محسوس ہوتی تھیں ۔
ایک آج کی عید ہے کہ پیسہ بھی ہے ۔عید بھی ہے۔لیکن کچھ اپنے نہیں رہے، تو کچھ اپنوں کا ساتھ نہیں رہا۔
ماں کی ممتا بھری مسکراہٹوں کے ساتھ فجر میں بیدا ر کرنا کہ آج جلدی اٹھو عید ہے ۔نہانا بھی ہے۔ کھانا بھی تیار ہے ۔دوگانہ(عید) کے لئے بھی جانا ہے
اب عید ہے ۔ماں نہیں ۔آج عید ہے ۔جھگڑے کے لئے باپ نہیں ۔آج عید ہے لیکن عیدی لینے والا میرا بیٹا سعد یونس نہیں ۔
ہاں یاد آیا، کوئی ہو نہ ہو لیکن عید ہوتی ہے۔عید ایک دینی فریضہ ہے، ضروری نہیں کہ دینی فریضہ خوشیاں بھی یکساں تقسیم کرے۔
بس محسوسات ہیں۔خیالات کی برسات ہے ۔جو سب پر سبقت لے گئے ہیں