+92 3238537640

Share Social Media

فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔

فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔
فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔

فلسفہ قربانی قرآن کی نظر میں۔

حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

Advertisements

 

انسانی تاریخ میں کچھ باتی ایسی ملتی ہیں جو ہبوط آدم سے لیکر آج تک مسلمہ چلی آرہی ہیں ۔ان میں سے ایک قربانی بھی ہے۔
تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے.قربانی انسانی تاریخ کا پہلا عمل ہے جس کی تاریخ اللہ نےاپنی کتاب مقدس میں بیان فرمائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

اونٹ کے طبی فوائد طب نبویﷺ کی روشنی میں

قربانی کی تاریخ

خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میں ہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ من سبق حاصل ہوتے ہیں ”اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے “ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷) ۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ۔

سیدنا آدم کے بیٹوں کی سب سے پہلی قربانی

یہ بھی پڑھیں

کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ دوسری قسط

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج میں واقع ہوا ہے اورحضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔
حضرت آدم کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے ، اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ۔ اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے (مجمع البیان ، طبرسی ، ج ۳ و ۴ ، ص ۲۸۳۔ روح المعانی ، ج ۴، جزء ۶ ، ص ۱۶۳) ۔

قربانی کا بنیادی مقصد

قربانی اک بنیادی مقصد اطاعت و قرب ہے، قرب کے خداوندی کے خلاف طبع فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔تاکہ معلوم ہوسکے کہ قربانی دینے والا واقعی قربانی کا جذبہ رکھتا ہے ،اگر اطاعت کا عنصر ہی باقی نہ رہا تو قربانی کی غرض غائت ہی ختم ہوجاتی ہے۔مذکورہ بالا سطور میں بیان ہونے والے واقعہ میں دوبھائیوں کی قربانی کا ذکر ہے ایک سراپا عجز و انکساری کا مجسمہ تھا ،جب کہ دوسرا کبر و نخوت اور اور انا کا استعارہ تھا۔یہ دونوں نفسیاتی طورپر اپنی اپنی انتہائووں کو چھو رہے تھے۔اسلام اعتدال راہ کا نام ہے،نیت کا اظہار عمل سے ہوتا ہے،۔مال ودولت تو ایک اظہار کا ذریعہ ہے،اگر کوئی اپنا طرز عمل نہیں بدلتا زبان سے یا بظاہر عمل سے وہ ان رسومات کو ادا کربھی لیتا ہے جنہیں عرف عام مین قربانی کہا جاتا ہے ۔وہ عمل میں تو شریک ہوگا لیکن حقیقی مقصد فوت ہوجائے گا۔۔

قران کریم نے اس طرز عمل کو اپنے مخصوص انداز میں بیان فرمایا ہے۔
قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴)

ہر امت کے لئے طریقہ قربانی مقرر ہے

اور ” ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ (سورہ حج، آیت ۶۷) : جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں”منسک“ سے مراد قربانی ہے (مجمع البیان ، ج ۷ و ۸ ، ص ۱۵۰ ۔ معالم التنزیل ، بغوی، ج ۳ ، ص ۳۵۰) ۔ ۳۴ ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رائج تھی ۔

کیا جانور ذبح کرنا ہی قربانی ہے

اطاعت و ایثار کا ایک انداز جانور ذبح کرنا بھی ہے۔مسلمانوں میںجو طریقہ قربانی رائج ہے وہ مخصوص جانور ذبح کرنے کا ہے،اس کا نصاب بھی مقرر ہے اس کا طریقہ بھی مخصوص ہے۔

گوشت تو سارا سال کھایا جاتا ہے ،پھر اس دن کے ذبح کئے ہوئے جانور میں کونسی خاصیت ہے کہ اسے اتنی اہمیت دی گئی ہے؟مقصد گوشت کا حصول نہیں بلکہ اطاعت و قربانی اور خوہشات کو قربان کرنا بھی شامل ہے۔
قران کریم قربانی کی غرض وغائت بیان فرماتا ہے۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ( الحج۳۷)
ترجمہ: کنزالعرفاناللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔

جن چیزوں کو یعنی جانوروں کو ذبح کرنا ان کا گوشت کھانا وغیرہ کی حقیقت بیان فرمادی ہے کہ اللہ کو تو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جانور خریدتے یا پالتے ہو ،پھر اسے مخصوص ایام میں ذبح بھی کرلیتے ہو۔اس کے بعد اسکا گوشت یا کسی بھی انداز میں فائدہ اٹھا سکتے ہو ،سب ہی کچھ تو تم نے روز مرہ روٹین کے مطابق کیا ہے،اس مین کونسی سی ایسی بات ہوئی ہے اسے قربانی کہہ سکو۔ ۔۔بتادیا کہ اس سے مقصود تقوی ہے۔دلی کیفیت اخلاص نیت۔اور طرز زندگی کی تبدیلی ہے۔ان قواعد کی پابندی ہے جنہیں زندگی میں لاگو کیا گیا ہے۔۔

3 Comments